سانحہ ماڈل کا مقدمہ، نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، رانا ثناء اللہ سمیت دیگر لیگی رہنماؤں کیخلاف درج کرانے کیلئے دائر درخواست کی سماعت 15جولائی تک ملتوی

بدھ 9 جولائی 2014 06:37

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔9جولائی۔2014ء)مقامی ایڈیشنل سیشن جج صفدر بھٹی نے سانحہ ماڈل کا مقدمہ میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، حمزہ شہبازشریف، رانا ثناء اللہ، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، پرویز رشید، عابد شیر علی اور چوہدری نثار علی خاں وغیرہ کے خلاف درج کرانے کے لئے دائر درخواست کی سماعت 15جولائی تک ملتوی کردی ہے۔ گزشتہ روز فاضل عدالت نے ایس ایچ او فیصل ٹاؤن سے مقدمے کا ریکارڈ طلب کر رکھا تھا تاہم مذکورہ ریکارڈ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی تحویل میں ہونے کی بناپر عدالت میں پیش نہ کیا جا سکا۔

فاضل عدالت نے متعلقہ ایس ایچ اوکو ریکارڈ پیش کرنے کے لئے آئندہ سماعت تک مہلت دی ہے۔مذکورہ درخواست منہاج القرآن سیکریٹیریٹ کے ڈائریکٹر ایڈ منسٹریشن محمد جواد حامد کی جانب سے دائر کی گئی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سائل16اور17جون کی درمیانی شب طیب ضیا نورانی کے ہمراہ 365-Mماڈل ٹاؤن میں واقع منہاج القرآن سیکریٹیریٹ میں موجود تھاکہ اچانک باہر شور ہونے لگا۔

(جاری ہے)

سائل اس کی وجہ معلوم کرنے کے لئے نکلا تو باہر پولیس کی بھاری نفری ڈی آئی جی (آپریشنز)رانا عبدالجبار کی قیادت میں سیکریٹیریٹ کے باہر لگی رکاوٹیں ہٹانے میں مصروف تھی۔ اس موقع پرایس پی ہیڈ کوارٹر، ایس پی سکیورٹی، ایس ایچ او کاہنہ اور ایس ایچ او نشتر ٹا?ن وغیرہ بھی موجود تھے۔

سائل نے جب پولیس قیادت کو بتایا کہ مذکورہ رکاوٹیں چار سال قبل عدلیہ اور اور پولیس کی ہدایت پر کھڑی کی گئی تھیں تو اسے جواب دیا گیا کہ یہ سارا آپریشن رانا ثناء کے حکم پر کیا جا رہا ہے۔

رانا ثناء نے کہا ہے کہ طاہرا لقادری کے خاندان کا نام و نشان مٹا دیا جائے چاہے ا س کے لئے خون ہی کیوں نہ بہانا پڑے۔ درخواست میں مزید کیا گیا ہے کہ توڑ پھوڑ کا شور سن پر وہاں لوگ اکٹھاہونا شروع ہوئے تو پولیس نے شیلنگ اور ہوائی فائرنگ شرو ع کر دی۔ پولیس کے ساتھ آئے ہوئے بلڈوزروں کا رخ سیکریٹیریٹ کے رہائشی حصے کی جانب ہوا تو بہت سی خواتین ڈھال بن کر آ گے آ گئیں۔

اس موقع پر ڈی آئی جی آپریشنز نے پولیس کو حکم دیا کہ میں تین تک گنتا ہوں اگر خواتین سامنے سے نہ ہٹیں تو ان پر گولیاں چلا دی جائیں۔ یہ کہہ کر ڈی آئی جی آپریشنز نے گنتی گننا شروع کر دی۔ اس کے تین تک پہنچتے ہی پولیس نے سیدھی فائرنگ شروع کر دی اس دوران ایک گولی تنزیلہ احمد کے چہرے پر لگی جبکہ وہاں موجود پولیس افسر طارق عزیز کے ہمراہی ایک اہلکار نے شازیہ مرتضی کی گردن پر گولی مار دی بعد ازاں دونوں خواتین جان کی بازی ہار گئیں۔

اس دوران صفدر حسین، محمد عمر ، محمد اقبال ، عاصم حسین، غلام رسول بھی گولیوں کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

آپریشن کے دوران پولیس نے سیکریٹیریٹ کے استقبالیہ پر بیٹھے عبدالمنان وارثی کو بھی زدو کوب کیا اور کارکنوں سے لائسنسی اسلحہ چھین لیا۔پولیس نے نہ صرف گوشہ درود کی حرمت پامال کرتے ہوئے اس پر گولیں برسائیں بلکہ وہاں سے قیمتی سامان بھی لوٹ لیا۔

اس سارے عمل کے دوران پولیس اور حکمرانوں کا چہیتا گلو بٹ سیکرٹریٹ کے سٹاف اور مہمانوں کی گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کرتا رہا۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ اس پولیس گردی کا مقصد صرف اور صرف طاہر القادری کو ان کے دس نکاتی ایجنڈے پر عمل سے روکنا تھا۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس کے اس سارے عمل کو میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، حمزہ شہبازشریف، رانا ثناء اللہ، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، پرویز رشید، عابد شیر علی اور چوہدری نثار علی خاں کی پشت پناہی حاصل تھی لہذا ذمہ دار پولیس افسران کے ساتھ ساتھ مذکورہ سیاستدانوں کے خلاف بھی اس سانحہ کا مقدمہ درج کرنے کے احکامات جاری کئے جائیں۔