اسرائیل پرجنگی جرائم کا مقدمہ، فلسطینی صدر پر دباؤ بڑ ھ گیا ،محمود عباس حماس سمیت تمام فلسطینی دھڑوں کی حمایت کے خواہاں، فلسطینی صدر امریکی نا را ضگی سے بچنے کے لئے ما ضی میں تحمل کا مظا ہر ہ کر تے رہے ، صہیونی ریاست کیخلاف عالمی فوجداری عدالت سے رجوع کیا جا ئے ، فلسطینی تنظیموں کا صدر سے مطا لبہ

ہفتہ 2 اگست 2014 09:02

غزہ(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔2اگست۔2014ء)اسرائیل پرجنگی جرائم کا مقدمہ در ج کرا نے کے لئے فلسطینی صدر پر دباو بڑ ھ گیا جسکے لئے صدر محمود عباس حماس سمیت تمام فلسطینی دھڑوں کی جانب سے تحریری حمایت کے خواہاں ہیں۔ غیر ملکی خبر رسا ں کے مطا بق محمود عباس ماضی میں اسرائیل کے خلاف عالمی فوجداری عدالت میں جنگی جرائم کا مقدمہ چلانے میں تحمل کا شکار رہے ہیں کیونکہ انھیں یہ خدشہ لاحق رہا ہے کہ ان کے اسرائیل کے ساتھ کشیدہ تعلقات مکمل طور پر معاندانہ ہوسکتے ہیں اور وہ امریکا کے مدمقابل بھی آ سکتے ہیں۔

لیکن اب غزہ کی پٹی میں گذشتہ25 روز کے دوران اسرائیلی جارحیت میں چودہ سو فلسطینیوں کی شہادت کے بعد ان پر فلسطینی دھڑوں اور سیاسی حلقوں کی جانب سے اسرائیل کے خلاف ہیگ میں قائم عالمی فوجداری عدالت( آئی سی سی) میں مقدمہ چلانے کے لیے دباوٴ بڑھتا جارہا ہے۔

(جاری ہے)

اسرائیلی عہدے داروں کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اپنے دفاع میں حماس کے راکٹ چھوڑنے کی جگہوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

وہ الٹا حماس پر یہ الزام عاید کررہے ہیں کہ اس کے جنگجو غزہ کے شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں حالانکہ اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی میں بلاتمیز بچوں ،خواتین اور ضعیف العمر افراد کو نشانہ بنا رہی ہے۔ ادھر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمشنر نیوی پلے نے جمعرات کو ایک بیان میں حماس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ گنجان آباد علاقوں سے راکٹ فائر کرکے اور انھیں اسکولوں اور اسپتالوں میں ذخیرہ کرکے جنگی جرائم کی مرتکب ہورہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اسرائیل نے غزہ میں شہری علاقوں ،اسکولوں ،اسپتالوں ،مکانوں اور اقوام متحدہ کی تنصیبات کو نشانہ بنا کر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔انھوں نے جنیوا میں ایک نیوزکانفرنس کے دوران کہا کہ ''بظاہر ان حملوں میں سے کوئی بھی میرے نزدیک اتفاقی نہیں ہے۔اسرائیل نے جان بوجھ کر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور اپنی بین الاقوامی ذمے داریوں کو پورا نہیں کیا ہے''۔

انھوں نے اسرائیلی فوج کے غزہ کے پاور پلانٹ ، نکاسیِ آب کے نظام اور پانی کے کنووٴں پر حملوں پر بھی کڑی تنقید کی ہے۔اسرائیلی فوج نے 2009ء میں بھی غزہ کی پٹی پر مسلط کردہ جنگ کے دوران پاور پلانٹ اور فراہمی و نکاسیِ آب کے نظام کو اسی طرح تباہ کردیا تھا۔اسرائیلی وزارت خارجہ کے ترجمان یگال پالمر نے مس نیوی پلے کے اس بیان پر کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔

دوسری جانب حماس کا موقف ہے کہ وہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کے طور پر یہ راکٹ فائر کررہی ہے۔اسرائیلی فوج کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں غزہ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں میں اضافے کے بعد اب غرب اردن سے تعلق رکھنے والے سیاسی دھڑے صدر محمود عباس پر یہ دباوٴ ڈال رہے ہیں کہ وہ صہیونی ریاست کے خلاف عالمی فوجداری عدالت سے رجوع کریں۔

فلسطین کی قانون ساز اسمبلی کے ایک آزاد رکن مصطفیٰ برغوثی کا کہنا ہے کہ ''ہم اس معاملے میں ایک طویل عرصے سے فلسطینی صدر پر دباوٴ ڈال رہے ہیں''۔

انھوں نے بتایا کہ گذشتہ منگل کو سیاسی لیڈروں کا اجلاس ہوا تھا اور محمود عباس نے شرکاء سے کہا کہ آئی سی سی سے رجوع کرنے کے لیے ایک اعلامیے پر دستخط کردیں۔اس وقت اجلاس کے تمام شرکاء نے اس پر دستخط کردیے تھے اور اب عدالت سے رجوع کرنے کا حتمی فیصلہ خود صدر محمود عباس ہی کریں گے۔

تاہم انھوں نے اجلاس کے شرکاء سے یہ کہا تھا کہ وہ حماس اور اسلامی جہاد کی جانب سے تحریری رضامندی کے بغیر آگے نہیں بڑھیں گے کیونکہ انھیں بھی ممکنہ طور پر جنگی جرائم کے مقدمے کا سامنا ہوسکتا ہے۔لسطینی صدر کی فتح تحریک نے اپنے فیس بْک صفحے پر لکھا ہے کہ ''وہ وسیع تر اتفاق رائے کے لیے کوشاں ہیں کیونکہ حماس کو بھی آئی سی سی میں ممکنہ مضمرات کا سامنا ہوسکتا ہے۔اس لیے تمام دھڑوں سے مشاورت کے بعد روم معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے''۔واضح رہے کہ اسی معاہدے کے تحت آئی سی سی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔

متعلقہ عنوان :