عراق،سنی رہنما نئی حکومت میں شمولیت پر آمادہ،اہل سْنت کے حقوق کے تحفظ اورمالکی دور کی ملیشیاوٴں کو ختم کرنے کی شرط

ہفتہ 16 اگست 2014 09:15

بغداد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔16اگست۔2014ء)عراق کے سنی اکثریتی صوبوں سے تعلق رکھنے والے قبائلی زعماء اور مذہبی قائدین نے نامزد وزیراعظم حیدرالعبادی کی قیادت میں تشکیل پانے والی نئی حکومت میں مشروط طور پر شامل ہونے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔مغربی صوبہ الانبار میں آباد بڑے قبیلہ دلیمی کے سربراہ اور اہم سنی لیڈر شیخ علی حاتم سلیمان نے جمعہ کو ایک نشری نیوز کانفرنس میں کہا ہے کہ وہ عبادی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں لیکن اس کی واحد شرط یہ ہے کہ سنی برادری کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔

انھوں نے ایک اور مطالبہ یہ کیا ہے کہ سبکدوش ہونے والے وزیراعظم نوری المالکی کے دورحکومت میں قائم کی گئی متعدد ملیشیاوٴں کو بھی ختم کیا جانا چاہیے۔واضح رہے کہ نوری المالکی کی فرقہ وارانہ پالیسیوں کے خلاف گذشتہ سال کے آخر میں الانبار کے سنی قبائل نے حکومت کے خلاف بغاوت کردی تھی اور ان کی اس بغاوت کو سخت گیر جنگجو تنظیم دولت اسلامی عراق وشام (داعش) نے ہائی جیک کرلیا تھا اور اب اس نے پانچ سنی اکثریتی صوبوں میں اپنی عمل داری قائم کررکھی ہے۔

(جاری ہے)

دلیمی قبیلے کی سربراہ کی جانب سے حکومت میں شمولیت پر آمادگی سے متعلق اس بیان سے قبل سنی قبائل کے ایک ترجمان نے بھی نئی حکومت میں شمولیت پر آمادگی ظاہرکی ہے اور عراق کے سرکردہ شیعہ رہ نما آیت اللہ علی سیستانی نے ارکان پارلیمان پر زوردیا ہے کہ وہ نامزد وزیراعظم ڈاکٹر حیدر العبادی کی حمایت کریں اور انتقال اقتدار کے عمل کو سیاسی اور سکیورٹی بحران کو حل کرنے کے لیے بروئے کار لایا جائے۔

انھوں نے جمعہ کو جاری کردہ ایک بیان میں مزید کہا ہے کہ ملک میں دھڑے بندی سے بچنے کے لیے صرف عراقی فوج کا پرچم ہر کہیں بلند کیا جائے۔انھوں نے کہا کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ نئی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔در یں اثناء ڈاکٹر نامزد وزیراعظم حیدرالعبادی نے اپنے فیس بْک صفحے پر ہم وطنوں پر زوردیا ہے کہ وہ درپیش چیلنجز کے مقابلے کے لیے متحد ہوجائیں۔

انھوں نے خبردار کیا ہے کہ آنے والا راستہ بہت کٹھن ہے۔قبل ازیں امریکا اور اقوام متحدہ نے نوری المالکی کے وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہونے کے اعلان کو سراہا ہے۔اوباما انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان کے فیصلے سے پْرامن انتقال اقتدار کی راہ ہموار ہوئی ہے اور اس سے تمام عراقی داعش کے جنگجووٴں سے درپیش خطرے کے مقابلے کے لیے متحد ہوسکیں گے۔نوری المالکی نے جمعرات کی شب بغداد میں ایک نشری تقریر میں اقتدار اور تیسری مدت کے لیے وزارتِ عظمیٰ سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ''وہ عراق کے اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے بعد آنے والے وزیراعظم کی توثیق کررہے ہیں''۔امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے ان کے اس فیصلے کو باوقار اور اہم قرار دیا ہے اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بین کی مون نے بھی اس اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔