عراق: شیعہ ملیشیا کو باضابطہ فوج میں ضم کرنے کے لیے قانون سازی ،متنازع بل کے 70 میں سے 30 نکات حزف بقیہ 40 کو بحث کیلئے جلد پارلیمنٹ میں پیش کردیا جائے گا

پیر 22 جون 2015 09:51

بغداد ( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔22 جون۔2015ء )عراق میں حکومت اور سیاسی حلقوں میں متنازع بننے والے ایک نئے مسودہ قانون کو پارلیمنٹ میں بحث کیلیے پیش کیے جانے کی تیاری کی جا رہی ہے جس میں ملک میں سرگرم شیعہ ملیشیا "حشدالشعبی" اور قبائلی جنگجو گروپوں کو باضابطہ فوج کا حصہ بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔عراقی ذرائع ابلاغ نے اراکین پارلیمان کے حوالے سے بتایا ہے کہ متنازع بل کے 70 میں سے 30 نکات حزف کردیے گئے اور بقیہ 40 نکات کو بحث کے لیے جلد ہی پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔

رپورٹس کے مطابق نئے مسودہ قانون کا اہم اور مشکل ترین نکتہ شیعہ ملیشیا "الحشد الشعبی" کو باضابطہ فوج میں شامل کرنا اور اسے مسلح افواج کی نیشنل گارڈز کے ماتحت کرنا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے کے بعد اس پر مزید اعتراضات بھی سامنے آسکتے ہیں کیونکہ ایک مخصوص مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے عسکری گروپ کو باقاعدہ فوج میں شامل کرنا کئی حوالوں سے قابل اعتراض ہے۔

(جاری ہے)

پارلیمنٹ میں بحث کے لیے پیش کیے جانے والے مجوزہ مسودہ قانون میں کہا گیا ہے کہ حشد الشعبی اور قبائلی جنگجوں کو نیشنل گارڈز میں شامل کرتے ہوئے جنگجوؤں کو باقاعدہ فوجیوں کا درجہ دیا جائے۔ فوج میں شمولیت کے بعد یہ گروپ نیشنل گارڈز کے ماتحت کام کرے۔ شیعہ ملیشیا کے علاوہ بعض دوسرے قبائل کے عسکری گروپ جو ابھی تک وزارت دفاع میں رجسٹرڈ نہیں ہیں انہیں بھی نیشنل گارڈز کا حصہ بنایا جائے۔

مسودے میں سفارش کی گئی ہے کہ نیشنل گارڈز کو اپنی مالیاتی اور انتظامی معاملات میں خود مختاری دی جائے مالی اور انتظامی معاملات کے تمام اختیارات نیشنل گاڑز کے کمانڈر انچیف کو سپرد کیے جائیں۔مجوزہ مسودہ قانون میں کہا گیا ہے کہ نیشنل گارڈز کا حصہ بننے والے عسکری گروپوں کو دیا جانے والا اسلحہ پولیس کے اسلحہ سے بھاری مگر باقاعدہ فوجی اسلحے سے ہلکا ہوگا۔

انسداد دہشت گردی میں معاونت، اضلاع کی سطح پر امن وامان کا قیام، پولیس کا تحفظ اور مشتبہ افراد کے خلاف پولیس کے آپریشن میں معاونت، انفراسٹرکچر کی حفاظت، ہنگامی حالات بالخصوص قدرتی آفات سے نمٹنے میں معاونت اور انٹیلی جنس اداروں کے درمیان معلومات کا تبادلہ نیشنل گارڈز میں شامل ہونے والے گروپوں کی اہم ذمہ داریاں ہوں گی۔نیشنل گارڈز کے سربراہ کا تقرر کے لیے چوٹی کے تین اہم نام تجویز کیے جائیں گے۔

کابینہ ان میں سے کسی ایک نام کو حتمی قرار دے کر معاملہ پارلیمنٹ کے حوالے کرے گی۔ پارلیمنٹ کابینہ کی سفارش کے تحت نیشنل گارڈز کے سربراہ کے تقرر کی منظوری دے گی۔ نیشنل گارڈز میں بھرتی ہونے والے اہلکار باضابطہ فوج اور ریزرو فوج کے طورپر کام کرسکیں گے۔ مستقل بنیادوں پر فوج کا حصہ بننے والوں کو ماہانہ تنخواہ اور وزارت دفاع کی جانب سے ان کے اہل خانہ کے لیے خصوصی مراعات دی جائیں گی۔

ان کے لیے یہ شرط ہوگی کہ وہ سیاسی جماعتوں سیاپنا ناطہ توڑ لیں اور کسی پارٹی کی حمایت یا مخالفت میں کسی سرگرمی میں حصہ نہ لیں۔مخصوص حالات یا ہنگامی کیفیت میں کسی بھی صوبے کا گورنر نیشنل گارڈز کا سربراہ سے ریزرو فوجیوں اور باضابطہ فوج کی معاونت طلب کرے گا تاہم گورنر کے مطالبے پر عمل درآمد نیشنل گارڈز کے سربراہ کی صوابدید پر ہوگاکہ آیا انہیں فوج کو بھیجنا چاہیے یا نہیں۔

متعلقہ عنوان :