روس نے بھی شامی صدر بشارالاسد کی حمایت پر مبنی اپنی پالیسی میں تبدیلی کا عندیہ دیدیا ، ماسکو کی جانب سے شام میں صدر بشارالاسد کی حمایت اب ماضی جیسی نہیں رہی ،ترک صدر

بدھ 5 اگست 2015 09:27

استنبول(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔5 اگست۔2015ء)ترکی کے صدر رجب طیب ایردگا ن نے کہا ہے کہ روس نے بھی شامی صدر بشارالاسد کی حمایت پر مبنی اپنی پالیسی میں نرمی دکھانا شروع کی ہے اور ولادی میر پوٹن بھی اب دھیرے دھیرے صدر اسد کی پشت پناہی اور حمایت سے پیچھے ہٹنا شروع ہوگئے ہیں۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کیمطابق ترک صدر نے چین اور انڈونیشیا کے دورے سے واپسی پر ہوائی جہاز میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ماسکو کی جانب سے شام میں صدر بشارالاسد کی حمایت اب ماضی جیسی نہیں رہی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ روس کی شام کے بارے میں پالیسی میں غیر معمولی تبدیلی آئی ہے اور اب صد ولادی میر پوتن بشار الاسد کی حمایت سے "دستکش" ہو رہے ہیں۔صدر ایردگا ن کا کہنا تھا کہ انہوں نے پچھلے ہفتے اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوتن سے طویل اورتفصیلی ملاقات کی تھی۔

(جاری ہے)

اس ملاقات میں بھی شام کا معاملہ زیربحث رہا۔ میں نے محسوس کیا کہ روسی صدر کی "بدن بولی" اب ماضی کی طرح صدر بشارالاسد کی حمایت کے حوالے سے کافی تبدیل ہوچکی ہے۔

وہ اس حقیقت کا ادراک کرنے لگے ہیں کہ شام میں اسد رجیم کی مسلسل حمایت مسئلے کا حل نہیں ہے۔خیال رہے کہ ترک صدر کے شام سے متعلق روس کے 'بدلتے موقف' کے بارے میں ان خیالات کا اظہار ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ترکی شام اور عراق کے اندر کرد باغیوں اور دولت اسلامی "داعش" کے ٹھکانوں پر بمباری کررہا ہے۔ اگرچہ شام اور عراق میں ترک فوج کی کارروائی کو تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑا ہے کیونکہ جب سے ترکی نے "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے نام سے عراق اور شام میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بمباری شروع کی ہے"داعش" کے ٹھکانوں پر صرف تین فضائی حملے کیے گئے ہیں جب کہ کرد علاحدگی پسند جماعت "کردستان لیبر پارٹی" اور اس کی حلیف کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کے مراکز پر دسیوں فضائی حملے کیے جا چکے ہیں۔

متعلقہ عنوان :