آڈیٹر جنرل نے یوٹیلٹی سٹورز میں افسروں کی تعیناتی غیرقانونی قرار دیدیں،لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ پر چیف فنانشل آفیسر ،چیف انٹرنل آڈیٹر،جنرل منیجر آئی ٹی اور چیف اپریٹنگ آفیسر کوتعینات کیا گیا،کارپوریشن کے بورڈ،سلیکشن کمیٹی نے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئیادارے پر 1کروڑ 31لاکھ روپے کا اضافی بوجھ ڈالا،آڈیٹر جنرل

پیر 7 دسمبر 2015 09:08

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ آن لائن۔7دسمبر۔2015ء) آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن میں لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ پر بھرتی ہونے والے چیف فنانشل آفیسر ،چیف انٹرنل آڈیٹر،جنرل منیجر آئی ٹی اور چیف اپریٹنگ آفیسر کی تعیناتیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بھرتیوں کی تحقیقات کرنے اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کی ہدایت کی ہے ،تما م تعیناتیوں کیلئے وزیر اعظم کی منظوری ضروری تھی مگر کارپوریشن کے بورڈ اور سلیکشن کمیٹی نے اپنے اختیارات سے تجاؤز کرتے ہوئے کارپوریشن پر 1کروڑ 31لاکھ روپے کا اضافی بوجھ ڈال دیا ہے ،گذشتہ کئی مہینوں سے تعینات افسران کارپوریشن کی بہتری اور آمدنی میں اضافے کیلئے کسی قسم کے اقدامات نہ کر سکے ۔

خبر رساں ادارے کو موصول ہونے والے دستاویزات کے مطابق یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن نے چیف فنانشل آفیسر ،چیف انٹرنل آڈیٹر اور کمپنی سیکرٹری کی آسامیوں کیلئے 2014جبکہ جی ایم آئی ٹی اور چیف اپریٹنگ آفیسر کے لئے جنوری 2015میں اشتہارات دئیے جس کے بعد سلیکشن کمیٹی نے حمود الرحمن کو چیف فنانشنل آفیسر،عمر ضیاء کو چیف انٹرنل آڈیٹراور نعیم اسلم کو کمپنی سیکرٹری کی حیثیت سے بالترتیب4لاکھ ،3لاکھ25ہزار اور 2لاکھ 65ہزار روپے ماہانہ تنخواہوں پر بھرتی کر لیا آڈٹ کے مطابق حمود الرحمن نے سی ایف او کی آسامی کیلئے کوئی درخواست نہیں دی تھی اور نہ ہی سلیکشن کمیٹی کی جانب سے شارٹ لسٹ کئے جانے والے امیدواروں میں شامل تھامگر اس کے باوجود اسے 4لاکھ روپے کے بھاری ماہانہ مشاہرے پر 5سالوں کیلئے ملازمت دیدی گئی ۔

(جاری ہے)

دستاویزات کے مطابق کارپوریشن میں چیف فنانشل آفیسر چیف انٹرنل آڈیٹراور کمپنی سیکرٹری کی تعیناتیاں بھی غیر ضروری طور پر کی گئی ہیں ادارے میں آڈٹ کا نظام پہلے سے موجود ہے اور ان تعیناتیوں کی وجہ سے کارپوریشن پر لاکھوں روپے کا اضافی بوجھ پڑا ہے دستاویزات کے مطابق تعینات ہونے والے افسران نے گذشتہ 10مہینوں کے دوران کارپوریشن کی بہتری کیلئے کوئی کام نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان کی تعیناتیوں سے کارپوریشن کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے اس کے برعکس ان تمام افسران کو ماہانہ 16لاکھ 30ہزار روپے تنخواہوں کی مد میں ادا کئے جارہے ہیں دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ بھاری ماہانہ مشاہروں پر تعیناتیوں کیلئے وزیر اعظم کی منظوری ضرروی ہوتی ہے مگر حکام نے وزیر اعظم سے منظوری لئے بغیر تعیناتیاں کر کے کارپوریشن کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے جس کی تحقیقات کرکے اس کے ذمہ داروں سے تفتیش کی جائے ۔