اصغر خان کیس،اسلم بیگ اور اسد درانی کی نظرثانی درخواستیں مسترد،اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری

عدالت فیصلے پرعملدرآمد نہ کرنے والوں پر ذمے داری کا تعین کرے گی، نظر ثانی درخواستیں منظور کیں تو فیصلہ کالعدم ہوجائے گا چیف جسٹس کے ریمارکس ایسا کوئی کام نہیں جو ادارے کے خلاف ہو، بطور آرمی چیف کوئی حکم نہیں دیا تھا، مجھے اس سے کچھ نہیں ملنا تھا، میں نے ادارے کی ذمہ داریوں سے پہلو تہی نہیں کی، یونس حبیب سندھ رجمنٹ سینٹر کا کنٹریکٹر تھا جس نے رجمنٹ سینٹر کو مسجد عطیہ کی اور اس کے علاوہ یونس حبیب سے کوئی بات نہیں ہوئی،سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ

پیر 7 مئی 2018 21:41

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ پیر 7 مئی 2018ء) سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس میں عدالتی فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کی نظر ثانی درخواستیں مسترد کر تے ہوئے عملدرآمد سے متعلق اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت فیصلے پرعملدرآمد نہ کرنے والوں پر ذمے داری کا تعین کرے گی، نظر ثانی درخواستیں منظور کیں تو فیصلہ کالعدم ہوجائے گا۔

پیر کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اصغر خان کیس نظرثانی درخواستوں کی سماعت کی۔عدالت کے طلب کیے جانے پر اٹارنی جنرل پیش ہوئے جن سے استفسار کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ اصغر خان کیس کا فیصلہ اکتوبر 2012 میں آیا، اتنا وقت گزرنے کے باوجود فیصلے پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا گیا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے مقف اختیار کیا کہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق معلوم کرنے کے لیے 2 دن کا وقت دیا جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دو دن نہیں رات ساڑھے 10 بجے تک معلوم کر کے عدالت کو آگاہ کریں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے نظر ثانی درخواستیں منظور کیں تو فیصلہ کالعدم ہوجائے گا، عدالت فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے والوں پر ذمے داری کا تعین بھی کرے گی۔سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ ایسا کوئی کام نہیں جو ادارے کے خلاف ہو، بطور آرمی چیف کوئی حکم نہیں دیا تھا، مجھے اس سے کچھ نہیں ملنا تھا، میں نے ادارے کی ذمہ داریوں سے پہلو تہی نہیں کی۔

مرزا اسلم بیگ نے مزید کہا کہ یونس حبیب سندھ رجمنٹ سینٹر کا کنٹریکٹر تھا جس نے رجمنٹ سینٹر کو مسجد عطیہ کی اور اس کے علاوہ یونس حبیب سے کوئی بات نہیں ہوئی۔سپریم کورٹ نے مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کی نظرثانی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے اصغر خان کیس کے فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا۔عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل بتائیں حکومت نے اصغرخان کیس پر عملدرآمد کے لیے کیا اقدامات کیے۔

سپریم کورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ بتائیں عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کے لیے کیا اقدامات کیے۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت (آج)تک کے لیے ملتوی کردی۔کیس سے متعلق عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے اصغر خان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں قراردیا تھا کہ سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی نے خلاف آئین کام کیا جس پر اسد درانی کے وکیل شاہ خاور نے کہا کہ عدالت نے رقم لینے والے سیاستدانوں کے خلاف تحقیقات کا بھی حکم دیا تھا۔

وکیل اکرم شیخ نے عدالت کو مزید بتایا کہ اکتوبر 2012 تا مارچ 2013 سابق اور پھر نگراں حکومتیں رہیں اور جون 2013 سے اب تک موجودہ حکومت نے عدالتی فیصلے پرعمل درآمد نہیں کیا۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا 'جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ کہاں ہیں، وہ تشریف لائے ہیں' جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ وہ موجود ہیں۔چیف جسٹس نے کہا 'جنرل صاحب روسٹرم پر آجائیں' جس کے بعد جنرل (ر) اسلم بیگ روسٹرم پر آئے اور کہا کہ مجھے صرف ایک روز قبل کیس مقرر ہونے کا بتایا گیا ہے، میں کیس کی تیاری نہیں کرسکا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جنرل صاحب کسی صورت میں کیس کی سماعت ملتوی نہیں کی جائے گی، اگر آپ کے وکیل نہیں ہیں تو دلائل خود شروع کردیں۔1990 میں اسلامی اتحاد کی تشکیل اور انتخابات میں دھاندلی کے لیے سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق ایئر فورس کے سابق سربراہ اصغر خان مرحوم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔سپریم کورٹ نے 2012 میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سمیت دیگر سیاست دانوں میں رقوم تقسیم اور 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی ذمہ داری مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درنی پر عائد کی تھی۔