Open Menu

Aitkaf - Naikiyoon Ka Mosaam E Bahar - Article No. 3156

Aitkaf - Naikiyoon Ka Mosaam E Bahar

اعتکاف نیکیوں کا موسم بہار - تحریر نمبر 3156

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاحیات رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف فرمایا

جمعہ 24 مئی 2019

عبدالرحمن سلفی
اعتکاف کے لغوی معنی ٹھہرنے کے ہیں ۔لیکن شرعی اصطلاع میں دنیا کے تمام ترکاروبار مصروفیات کو ترک کرکے عبادت الٰہی کی نیت اور رضائے الٰہی کے حصول کے جذبے کے تحت مسجد میں ٹھہر کر عبادت‘ذکر واذکار‘تلاوت قرآن مجید وغیرہ میں مشغول رہنے کو اعتکاف کہتے ہیں۔
حالت اعتکاف میں کثرت سے نوافل کی ادائیگی اور تلاوت ‘دعا‘ذکروتسبیح وتہلیل ،درود شریف وغیرہ کے ذریعے اپنے رب سے تعلق استوار کرنا چاہیے۔
اسی طرح مسجد میں قرآن وحدیث کا درس دینا اور وعظ ونصیحت کرنا بھی جائزومستحسن ہے کیونکہ یہ ذرائع عقائد واعمال کی اصلاح میں بے حد ممدومعاون ثابت ہوتے ہیں۔
اعتکاف کی بڑی فضیلت ہے ۔رحمت کا ئنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :(ترجمہ )”جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں کوشاں ہو اور اس مقصد میں کامیاب ہوجائے تو(یہ عمل )دس سال کے اعتکاف سے اس کے حق میں بہتر ہے ۔

(جاری ہے)

اور جس نے اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کیلئے ایک دن کا اعتکاف کیا تو اللہ تعالیٰ اس بندے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کی دوری کر دیتا ہے جو زمین وآسمان سے بھی زیادہ دور ہیں۔“(طبرانی،ترغیب)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :(ترجمہ)”جس نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کرلیا۔اسے دوحج اور دوعمرے کا ثواب عطا ہوگا۔
“(بیہقی)
چونکہ رمضان المبارک نیکیوں کا موسم بہار ہے اور اس ماہ مقدس میں اللہ رب العالمین کی رحمتیں اور بخششیں اپنے بندوں کیلئے دیگر ایام کی نسبت بہت زیادہ بڑھی ہوتی ہیں اور خالق جن وبشر اپنے گناہگار بندوں کو ،جو اپنی شامت اعمال کی بہ دولت اللہ کے غضب اور جہنم کے مستحق ٹہر چکے ہوتے ہیں ‘مالک کائنات اس ماہ مبارک میں انہیں اصلاح کا موقع عطا فرمادیتا ہے تاکہ اس کے بندے سارا سال کیے گئے گناہوں اور نافرمانیوں پر شرمندہ ہو کر اپنے رب کے حضور گڑ گڑا کر اور اپنی جبین نیازخم کرکے تو بہ واستغفار کرلیں اور وہ مہربان آقا اپنی مخلوق کو جہنم سے آزادی کا پروانہ جاری فرمادے۔

ماہ رمضان المبارک کی تمام ترعبادات کا محور رضائے الٰہی کا حصول ہوتا ہے ۔اعتکاف بھی رمضان المبارک میں انجام پانے والے ایسے ہی پاکیزہ اعمال میں سے ایک ہے ۔البتہ اس عبادت کی ادائی کے چند آداب ہیں ،جنہیں ملحوظ خاصر رکھنا ازحد ضروری ہے مبادابے پروائی یاعدم آگاہی کی بنا پر خدانخواستہ ہماری یہ عظیم عبادت ضائع ہوجائے اور ہمیں سوائے مشقت کے کچھ بھی حاصل نہ ہو۔

معتکف کا عاقل ‘مسلمان ہونا اور عورتوں کا حیض و نفاس سے پاک ہونا نیز معتکفین کا جنابت سے پاک وصاف ہونا اور اعتکاف کی نیت کرنا اورمسجد کا ہونا ضروری ہے۔اسی طرح اعتکاف کی حالت میں مسجد سے باہر جاناجائز نہیں۔البتہ بول وبراز‘فرض نماز اور نماز جمعہ کی ادائی کیلئے اپنے اعتکاف کے مقام سے باہر جاسکتے ہیں۔
اعتکاف کی دواقسام ہیں ،فرض اور سنت
فرض اعتکاف یہ ہے کہ کوئی نذریا منت مان کر اسے اپنے لازم کرلے ۔
یعنی یوں کہے کہ میں اللہ کے واسطے اعتکاف کروں گا تو اس کا اداکرنا فرض ہے۔کیوں کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(ترجمہ)”اپنی نذروں کو پورا کرو۔“
سنت اعتکاف یہ ہے کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں دس روز کا اعتکاف کیا جائے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاحیات رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف فرمایا۔
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:(ترجمہ)”نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان شریف کے آخری عشرے میں پوری زندگی اعتکاف فرمایا۔
ایک مرتبہ ایک سال رمضان میں نہیں کیا تھا تو شوال کے مہینے میں اس کو ادا فرمایا۔اسی طرح عورتیں بھی اعتکاف کر سکتی ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعتکاف کیا کرتی تھیں۔“(بخاری ومسلم)
اسی طرح جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اس سال آ پ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا تھا۔
(ترمذی ‘ابو داؤد)
اعتکاف ایسی عظیم عبادت ہے کہ انسان اپنی جائز دنیاوی ضروریات سے دستبردار ہوجاتاہے اور خالصتاً اللہ تعالیٰ سے لولگا کر مسجد کے ایک کونے میں پڑارہ جاتا ہے ۔اسلئے اس عبادت کو اعتکاف کہا جاتا ہے کہ اس بندے نے اپنے آپ کو ایک خاص مقصد (یعنی رضائے الٰہی کے حصول)کیلئے ایک خاص مقام( مسجد کے کونے)میں محدود کرلیا ہے اور وہ دنیا کے جائز معاملات سے بھی لاتعلق ہوکر مشغول عبادت ہو گیا ہے۔

معتکف کا حالت اعتکاف میں سونا‘جاگنا یا خالی بیٹھنا بھی عبادت ہے ۔لیکن حالت اعتکاف میں‘جہاں تک ممکن ہو سکے اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اعتکاف کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ معتکف کو محض اعتکاف کے اجرو ثواب میں دوحج اور دوعمروں کا ثواب ملتا ہے جو وہ حالت اعتکاف میں یک سوئی کے ساتھ ادا کرتا ہے ۔تاہم ان خوش نصیب لوگوں کو اعتکاف کی برکت سے شب قدر کی فیوض وبرکات سے بھی مستفید ہونے کا سنہری موقع مل جاتاہے،جس کی ایک رات کی عبادت کا ثواب ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے ۔
لہٰذا دوران اعتکاف لایعنی باتوں اور مشاغل سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔
بعض حضرات اعتکاف میں بھی موبائل فون لیے کاروباری یا خاندانی معاملات نمٹاتے رہتے ہیں یا دوستوں کی محل لگا کر خوش گپیوں میں مصروف رہتے ہیں۔یہ امور اعتکاف کے اجروثواب کو ضائع کرنے والے ہیں لہٰذا ان سے اجتناب کرتے ہوئے مکمل یکسوئی کے ساتھ اپنے رب سے تعلق استوار کرکے اپنی بخشش کا سامان مہیا کرنا چاہیے۔
حالت اعتکاف میں تیل ‘خوشبو لگانا اور غسل کرنا جائز ہے البتہ جنازے کے ساتھ جانا یا کسی بھی ضرورت کے تحت مسجد سے باہر جانا ممنوع ہے۔
اعتکاف کی شرائط میں سے ہے کہ اعتکاف کیلئے مسجد کا ہونا ضروری ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اعتکاف کو سنت مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ادا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے تاکہ ہمیں صحیح معنوں میں اس کی فیوض وبرکات حاصل ہو سکیں۔آمین یا رب العالمین

Browse More Islamic Articles In Urdu