Open Menu

Nakiyon Ki Tijarat Ka Mausam - Article No. 3383

Nakiyon Ki Tijarat Ka Mausam

نیکیوں کی تجارت کا موسم - تحریر نمبر 3383

اللہ تعالیٰ نے رمضان کو ایسا پیار امہینہ بنایا ہے کہ جس کے استقبال کے لئے آسمان پر بھی تیاریاں ہوتی ہیں اور جنت سجائی جاتی ہے

جمعرات 23 اپریل 2020

تحریر:محمد نفیس دانش


یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ سارے زمانے، سارے سال اور سارے مہینے اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں۔حسب معمول رمضان المبارک میں بھی سورج طلوع ہوتا ہے اور غروب ہوتا ہے، اس کی ماہیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن جب کسی خاص مہینے کو اللہ رب العزت اپنی طرف منسوب کر کے یہ کہہ دیتے ہیں ک یہ مہینہ میرا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت اور خاص نظر کرم ہوتی ہے، باقی دنوں میں بھی نیکیوں کا ثواب ملتا ہے لیکن معمولی سی معمولی نیکی کو بھی ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر کس قدر خاص عنایت ہے گویا کہ یہ مہینہ ہمارے لیے نیکیوں کی تجارت کرنے کا ہوتا ہے اور اس سے بہترین تجارت اور کوئی ہو نہیں سکتی۔

(جاری ہے)


ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ نے ایک موقعہ پر اس ماہ مبارک کی آمد کی خبر یوں دی کہ:”سنو سنو تمہارے پاس رمضان کا مہینہ چلا آتا ہے۔ یہ مہینہ مبارک مہینہ ہے جس کے روزے اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کردیے ہیں اس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور سرکش شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ اور اس میں ایک رات ایسی مبارک ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے جو اس کی برکات سے محروم رہا تو سمجھو کہ وہ نامراد رہا“۔
(نسائی، کتاب الصوم)
اللہ تعالیٰ نے رمضان کو ایسا پیار امہینہ بنایا ہے کہ جس کے استقبال کے لئے آسمان پر بھی تیاریاں ہوتی ہیں اور جنت سجائی جاتی ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ:
”ماہ رمضان کے استقبال کے لئے یقیناً سارا سال جنت سجائی جاتی ہے۔اور جب رمضان آتا ہے تو جنت کہتی ہے کہ یا اللہ اس مہینے میں اپنے بندوں کو میرے لئے خاص کردے“۔
(بیہقی شعب الایمان)
اسی لئے آپ نے ایک موقعہ پر فرمایا:
”رمضان کا خاص خیال رکھو؛ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے جو بڑی برکت والا اور بلند شان والا ہے۔ اس نے تمہارے لئے گیارہ ماہ چھوڑ دیے ہیں جن میں تم کھاتے ہو اور پیتے ہو اور ہر قسم کی لذات حاصل کرتے ہو مگر اس نے اپنے لئے ایک مہینہ کو خاص کرلیا ہے“۔(مجمع الزوائد)
رمضان المبارک کو ”سَیِّدُ الشُّہُور“یعنی تمام مہینوں کا سردار بھی کہا گیا ہے۔
یہ مہینہ بے شمار برکات کا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ ہمارے گیارہ مہینوں کے گناہوں کی میل کچیل کو صاف کرنے اور دھونے کے لیے ہر سال آتا ہے۔چودہ سو برس سے لاکھوں کروڑوں صلحاء و ابرار ان برکات کا مشاہدہ کرتے آئے ہیں اور آج بھی ان برکات سے بہرہ اندوز ہونے والے بزرگ بکثرت موجود ہیں۔ ان ایام میں مخلص روزہ داروں کو خاص روحانی کیف سے نواز ا جاتا ہے، ان کی دعائیں سنی جاتی ہیں۔
ان پر انوار کے دروازے کھلتے ہیں۔ انہیں معارف سے بہرہ ور کیا جاتا ہے۔ وہ کشف، رویا او ر الہام کی نعمت سے سرفراز ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں خد ا کی لقا نصیب ہوتی ہے۔
سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
”غرض رمضان ایک خاص اہمیت رکھنے والا مہینہ ہے اور جس شخص کے دل میں اسلام اور ایمان کی قدر ہوتی ہے وہ اس مہینہ کے آتے ہی اپنے دل میں ایک خاص حرکت اور اپنے جسم میں ایک خاص قسم کی کپکپاہٹ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
کتنی ہی صدیاں ہمارے اور محمد رسو ل اللہ ﷺ کے درمیان گزر جائیں، کتنے ہی سال ہمیں اور ان کو آپس میں جدا کرتے چلے جائیں، کتنے ہی دنوں کا فاصلہ ہم میں اور ان میں حائل ہوتا چلا جائے۔ لیکن جس وقت رمضان کا مہینہ آتاہے تو یوں معلوم ہوتاہے کہ ان صدیوں اور سالوں کو اس مہینہ نے لپیٹ لپاٹ کر چھوٹا سا کر کے رکھ دیاہے اور ہم محمد رسول اللہ ﷺ کے قریب پہنچ گئے ہیں۔
بلکہ محمد رسول اللہ ﷺکے ہی قریب نہیں چونکہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے اس لئے یوں معلوم ہوتاہے کہ اس تما م فاصلہ کو رمضان نے سمیٹ سماٹ کر ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب پہنچا دیا ہے۔ اور وہ بُعد جو ایک انسان کو خدا تعالیٰ سے ہوتاہے، وہ بُعد جو ایک مخلوق کو اپنے خالق سے ہوتاہے،وہ بُعد جو ایک کمزور اور نالائق ہستی کو زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے خدا سے ہوتاہے وہ یوں سمٹ جاتاہے، وہ یوں غائب ہو جاتاہے جیسے سورج کی کرنوں سے رات کا اندھیرا۔
یہی وہ حالت ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:(وَاِذَا سَا?َلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ)۔ جب رمضان کا مہینہ آئے اور میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں کہ مَیں انہیں کس طرح مل سکتاہوں تو توُ انہیں کہہ دے کہ رمضان اور خدا میں کوئی فرق نہیں۔یہی وہ مہینہ ہے جس میں خدا اپنے بندوں کے لئے ظاہر ہوا اور اس نے چاہا کہ پھر اپنے بندوں کو اپنے پاس کھینچ کر لے آئے۔
اس کلام کے ذریعہ جو حبل اللہ ہے، جو خدا کا وہ رسّہ ہے جس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں ہے اور دوسر ا مخلوق کے ہاتھ میں۔ اب یہ بندوں کا کام ہے کہ وہ ا س رسّہ پر چڑھ کر خدا تک پہنچ جائیں“۔
(تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعود سورة البقرہ زیر آیت ۶۸۱)
رمضان المبارک میں آپ صلعم کی عبادت :
حضرت عائشہ  بیان فرماتی ہیں کہ:”رمضان میں تو آپ کمر ہمت کس لیتے تھے اور پوری کوشش اور محنت فرماتے تھے“۔

آنحضور کی ا س عبادت کی کیفیت کا بھی ذکر ملتا ہے کہ راتوں کو عبادت کرتے ہوئے آپ کا سینہ خدا کے حضور گریاں و بریاں ہوتا۔ دل ابل ابل جاتا اور سینہ میں یوں گڑگڑاہٹ کی آواز سنائی دیتی جیسے ہنڈیا کے ابلنے سے آواز پیدا ہوتی ہے“۔
(شمائل ترمذی)
قرب الٰہی کا کیمیائی نسخہ :
روزہ رکھنے والے کو روزہ کی جزاء میں خدا ملتاہے۔
قرب الٰہی اور دیدار الٰہی نصیب ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ  بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
”تمہارا رب فرماتا ہے کہ ہر نیکی کا ثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے اور روزہ کی عبادت تو خاص طورپر میرے لئے ہے اورمیں خود اس کی جزاء خود دوں گا یا میں خود اس کا بدلہ ہوں“۔(ترمذی۔ابواب الصوم)
اسی طرح آپ نے دوسری جگہ فرمایا کہ:
”روزہ دار کے لئے دو خوشیاں مقدر ہیں ایک خوشی اسے اس وقت ملتی ہے جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی اس وقت ہوگی جب وہ روزہ کی وجہ سے اپنے رب سے ملاقات کرے گا“۔
(بخاری کتاب الصوم)
روزہ ملائکہ کی دعاؤں اور استغفار کے حصول کا ذریعہ بھی ہوتا ہے چنانچہ حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
”جب کوئی رمضان کے پہلے دن روزہ رکھتا ہے تو اس کے پہلے سب گناہ بخش دئے جاتے ہیں۔ اسی طرح ہر روز ماہ رمضان میں ہوتا ہے اور ہر روز اس کے لئے ستّر ہزار فرشتے اس کی بخشش کی دعائیں صبح کی نماز سے لے کر ان کے پردوں میں چھپنے تک کرتے ہیں“۔

(کنزالعمال۔ کتاب الصوم)
ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ:
”فرشتے روز ہ دار کے لئے دن رات استغفار کرتے ہیں“۔(مجمع الزوائد)
گناہوں سے پاک ہونے کا اہم موقع
حضرت عبدالرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
”جو شخص رمضان کے مہینے میں حالت ایمان میں ثواب اور اخلاص سے عبادت کرتاہے وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتاہے جیسے اس روز تھا جب اس کی ماں نے اسے جنا“۔
(نسائی، کتاب الصوم)
اسی طرح آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں روزہ گناہوں کو یکسر مٹا دیتا ہے۔ نذر بن شیبان کہتے ہیں کہ میں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے کہا آپ مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو آپ نے اپنے والد سے سنی ہو اور انہوں نے ماہ رمضان کے بارے میں آنحضرت ﷺ سے براہ راست سنی ہو۔ نذر بن شیبان کہتے ہیں میں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے کہا تھا۔
یہ کیا خیال آیا ان کو، معلوم ہوتا ہے کوئی یہ روایت عام ہوئی ہوگی اور اس کا چرچا انہوں نے سنا ہوگا اور وہ چاہتے ہونگے کہ میں ان کی زبان سے خود سن لوں۔ ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے کہا ہاں مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے رمضان کے روزے رکھنے تم پر فرض کئے اور میں نے تمہارے لئے اس کا قیام جاری کر دیا پس جو کوئی ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے روزے رکھے و ہ گناہوں سے ایسے نکل آتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہو“۔
(بخاری بمعناہ)
روزہ نام ہے :
روزہ صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں، بلکہ آنکھ، کان، ہاتھ، زبان اور دیگر اعضاء کا بھی روزہ ہوتا ہے۔ اپنی آنکھوں اور کانوں کو گناہ گار ہونے سے بچائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ روزے میں سوائے بھوک اور پیاس کے اور کچھ حاصل نہ ہو۔رسول اللہ صلی علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”روزہ ڈھال ہے۔“ نیز آپ نے فرمایا: ”جو شخص روزے سے ہوتے ہوئے بھی لغو گفت گو اور فضول کام نہیں چھوڑے تو اللہ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
“ (صحیح بخاری)
جو شخص رمضان کے ان تقاضوں کو پورا کرتا ہے ان کے لئے حضور اکرم نے یہ بشارت سنائی ہے:
''حضرت ابوسعیدخدری سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کویہ کہتے سنا کہ جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے اور جس نے رمضان کے تقاضوں کوپہچانا اور ان کو پورا کیا اورجو رمضان کے دوران اُن تمام باتوں سے محفوظ رہا جن سے اس کو محفوظ رہنا چاہئے تھا یعنی جس نے ہر قسم کے گناہ سے اپنے آپ کو بچائے رکھا تو ایسے روزے دار کے لئے اس کے روزے اس کے پہلے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔
(مسند احمد بن حنبل)
الغرض روزہ اپنے اندر ایک عجیب خصوصیت رکھتا ہے کہ یہ ریاکاری اور دکھلاوے سے کوسوں دور اور چشم اغیار سے پوشیدہ، سراپا اخلاص اور عابد و معبود، ساجد و مسجود کے درمیان ایک راز ہے۔ اس کا علم روزہ دار اور حق تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کو نہیں ہوتا۔ جیسے دیگر عبادات نماز، حج، جہاد وغیرہ کی ایک ظاہری ہیئت و صورت ہوتی ہے روزے کی اس طرح کوئی ظاہری شکل و صورت موجود نہیں جس کی وجہ سے کوئی دیکھنے والا اس کا ادراک کر سکے۔

روزہ انسان کو ایسی قوت برداشت سکھاتا ہے جس کی بنا پر انسان اپنے نفس پر کنٹرول کر سکتا ہے اور روزہ رکھنے سے انسان کے اندر ایسا ملکہ پیدا ہوتا ہے جس کے باعث آدمی اپنے آپ کو تمام اعمال سیہ، اخلاق رذیلہ اور عادات شنیعہ سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ اس کے لیل و نہار رسومات قبیحہ سے مبرا اور صاف و شفاف ہو جاتے ہیں۔ شب و روز ذکر باری تعالیٰ، تقویٰ و پرہیزگاری، حلاوت ایمانی، انابت الی اللہ، زہد و تقویٰ، رکوع و سجود، تسبیح و تہلیل، خشوع و خضوع، صبر و تحمل، بردباری، سنجیدگی و متانت جیسی صفات عالیہ میں مصروف عمل دکھائی دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس سال بھی مکمل روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور کثرت سے عبادت کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے آمین۔

Browse More Islamic Articles In Urdu