Open Menu

Ramzan Ul Mubarak - Barkatoon, Rehmatoon Or ALLAH Talah Ki Atta O Bakhshish Ka Mahina! - Article No. 3132

Ramzan Ul Mubarak - Barkatoon, Rehmatoon Or ALLAH Talah Ki Atta O Bakhshish Ka Mahina!

رمضان المبارک :برکتوں ‘رحمتوں اور اللہ تعالیٰ کی عطاوبخشش کا مہینہ! - تحریر نمبر 3132

نز ول وحی کی ابتداء اسی ماہ مبارک میں ہوئی پہلا عشرہ رحمت عامہ کا ہے جس میں رحمت باری کا سیلاب امڈ آتاہے

ہفتہ 11 مئی 2019

مولانامحمد اکرم اعوان
روزہ روحانی تربیت اور حصول رحمت کے لئے ایک خاص اہتمام ہے ،روزے کی فرضیت محض مشقت نہیں بلکہ ایک خاص مقصد تقویٰ کے حصول کے لئے ایک تربیتی پروگرام ہے ،تقویٰ ایک ایسی کیفیت کانام ہے جو انسان کو اللہ کی نافرمانی سے روک دے اور عملاً اللہ کی عظمت سے آشنائی نصیب ہو یعنی انسان کا ہر عمل اس بات کی گواہی دے کہ اسے اللہ سے تعلق عبدیت حاصل ہے اور وہ اپنی حیثیت کے مطابق اللہ کی عظمت سے آشنا ہے گو یا روزہ وہ نعمت ہے جس کے نتیجے میں مومن کو اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسا تعلق نصیب ہوجائے جو ہاتھ کو اٹھنے اور قدم کو چلنے سے تھام لے اور حدود اللہ سے تجاوز نہ کرنے دے۔

رمضان المبارک بہت برکتوں ،رحمتوں اور بہت زیادہ بخشش کا مہینہ ہے یہ ماہ مبارک اپنی برکات اپنے انعامات اور اللہ کی عطاوبخشش کے اعتبار سے تمام مہینوں کا سردار مہینہ ہے جسے اللہ کریم نے اپنا مہینہ قرار دیا ہے اور انسانی فطرات اور مزاج کے مطابق اس کا اہتمام فرمایا ہے کہ ساری کائنات سے کاٹ کر جائز ضروریات سے بھی مقررہ اوقات میں کنارہ کش کرکے اپنے روبروبٹھا کر شرف ہم کلامی عطا فرمایا۔

(جاری ہے)

اللہ کریم ارشاد فرماتے ہیں یہی تو وہ مہینہ ہے جس میں میں نے تم سے بات کی اور جس کی خوشی میں ہر سال یہ پورا مہینہ تمہیں عطا کردیا۔
رمضان المبارک کی اصل اساس یہ ہے کہ یہ وہ مبارک مہینہ ہے جسے ایک خاص تقدس ،ایک خاص اعزازدے کر ایک سر بلندی دے کر اس لیے منتخب فرمایا گیا کہ اس میں اللہ کا کلام نازل ہوا،ہر نبی علیہ السلام پر جوکلام الٰہی نازل ہوا اس کی ابتدار مضان المبارک ہی میں ہوئی اور قرآن کریم بھی سارے کا سارا علم الٰہی سے لوحِ محفوظ میں آیا،لوحِ محفوظ سے آسمان دنیا پر رمضان المبارک میں منتقل فرمایا گیا اور نزول وحی کی ابتدا اسی ماہِ مبارک میں ہوئی پھر مسلسل نازل ہوتا رہا ،اس مہینے کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہ مشت غبار میں وہ اہلیت پیدا کرتا ہے ،وہ پاکیزگی پیدا کرتا ہے ،وہ طہارت پیدا کرتا ہے ،وہ لطافت لے آتا ہے کہ کلام الٰہی کو سننے ،سمجھے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق ارزاں ہو جاتی ہے جس میں عملاً یہ تربیت دی جاتی ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے ،یہی وجہ ہے کہ جہاں یہ تقدس نہیں ہوتا وہاں کلام الٰہی سے ہدایت نصیب نہیں ہوتی ہے ،سورمضان کا مجاہدہ کرنا ہے تراویح پڑھنا ہے ،روزہ رکھنا ہے ،مجاہدہ کرنا ہے تو تقویٰ کے حصول کے لئے کرو۔

اللہ تعالیٰ کو پانے اور اُسے راضی کرنے کیلئے کرو اس کے قرب کو پانے کے لئے کرواس کا قرب مل گیا تو جنت آپ کے قدموں میں ہوگی اور اس مقصد ہی سے ہٹ گئے تو اس کا قرب کیسے ملے گا؟،یوں تو رمضان کی ہر رات کا قیام تراویح اور تہجد ،ہر ایک کی اپنی خصوصیت ہے ۔
دن بھر اللہ کی فرمانبرداری میں جائز امور سے پر ہیز بندہ مومن کو ذات باری سے ایک خاص قریب عطا کرتا ہے کہ اللہ تورگ جاں سے بھی زیادہ قریب تر ہے لیکن قریب ہونا اور بات ہے اور بندے کو قرب کا احساس ہو یہ اور بات ہے تو روزہ انسان کے اندر اس احساس کو بیدار کرتا ہے کہ اس کا مالک اس کے پاس ہے یہ احساس ترقی کرتا ہے اور بندہ اپنا محاسبہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے ،پہلے عشرے میں رحمت خداوندی سے احساس زیاں پیدا ہوا جیسا کہ حدیث پاک میں ارشاد ہے کہ اس کا پہلا عشرہ رحمت عامہ کا ہے جس میں رحمت باری کا سیلاب امڈتا ہے اور رحمت باری ہر لحظہ ہر آن پورے جوبن سے برس رہی ہوتی ہے ۔

خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اپنے کا سئہ دل کو سیدھا رکھتے ہیں اگر کہیں کمی ہوتی ہے تو ٹیڑھاپن کا سئہ دل میں ہوتا ہے ۔بار ان رحمت میں کمی نہیں ہوتی کہیں ہمارے اعتقاد کی کمزوریاں ،کہیں رسومات کی پیروی، کہیں ہمارے کردار کی خامیاں ہمارے کا سئہ دل کو ٹیڑھا کر دیتی ہیں اور اس میں کچھ نہیں پڑتا ۔خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے کاسئہ دل کو سیدھا اور رحمت باری سے بھرلیا۔
دوسرے عشرے تک احساسِ ندامت نے زور پکڑا اور اصلاح احوال،توبہ اور مغفرت کے لئے کوشاں ہواجب اپنا احتساب کرنے کا حوصلہ آیا تو تیسرے عشرے کی طاق راتوں میں اپنے رب کریم کی بے پایاں مغفرت کا طالب ہوا ،راتوں کو قیام کا ذوق عطا ہواتو اللہ کریم کی طرف سے مزید سہولت عطا ہوئی۔
رمضان المبارک کو اپنے نقوش ثبت کرنے چاہئیں عملاً اور شکلاً جوروزہ ہے کہ کھانے پینے سے رک گئے یا اور امور سے رک گئے یہ پابندی تو ختم ہوگئی ۔
رمضان المبارک کا مہینہ تو گزر گیا لیکن ہر خطا سے رکنے کی پابندی کو اگر طبیعت میں جگہ دے گیا تو رمضان گیا نہیں رمضان موجود ہے ۔اگر جھوٹ بولنے سے ڈرلگتا ہے تو رمضان موجودہے ،اس کی برکات موجودہیں،اگر حرام کھانے سے ڈرلگتا ہے تو رمضان موجود ہے،اس کی برکات موجود ہیں۔
اطاعت الٰہی کی رغبت باقی ہے تو رمضان باقی ہے اس کی برکات باقی ہیں اور اگر یہ چیزیں نصیب نہیں ہوئیں تو پھر واقعی رمضان گزر گیا اور گزرے ہوئے لمحات لوٹا نہیں کرتے اپنی زندگی کا محاسبہ کرتے ہوئے اپنی خطاؤں کی بخشش چاہتے ہوئے اپنے گناہوں اور لغزشوں کو پیش نظر رکھ کر اللہ سے بخشش طلب کی اور ماہ رمضان المبارک کا روزہ رکھا تو ایک روزہ زندگی بھر کی خطاؤں کی بخشش کے لیے کافی ہے ۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا ایمان بڑا مضبوط ہے ۔
یاد رکھیے جو ایمان اللہ کی نافرمانی کرنے سے روکنے کا کام نہیں کرتا وہ مضبوط نہیں کمزور ہے ۔جو ایمان حرام کھانے کو برداشت کر لیتا ہے اور حلال پہ اصرار نہیں کرتا جو ایمان فرائض کی پابندی سے محروم انسان کے ساتھ گزارا کرتا ہے وہ کمزور ہے ۔آج ہمارے ایمان میں دراڑیں پڑچکی ہیں جو رسومات ہم نے خود ایجاد کیں انہیں ہم اپنے لیے باعث عزت سمجھ کر پوری پابندی سے ان پر عمل کرتے ہیں وہ شادی کی ہوں ،جنازے کی ہوں ،مرنے والے کی ہوں ،پیدا ہونے والے کی۔

ہر رسم کو ہم فرض عین سے زیادہ اہمیت دے کر نبھاتے ہیں ۔اس لیے کہ اس میں ہم اپنی اور اپنے ذاقی وقار کو داؤ پر نہیں لگا سکتے۔جب اطاعت الٰہی کی بات آتی ہے تو ہم نرم پڑجاتے ہیں ۔طبیعت خراب ہوتو نماز چھوٹ جاتی ہے ۔مہمان آجائیں توذکر الٰہی رہ جاتا ہے ۔حلال وحرام کی تمیز بہت کم رہ جاتی ہے یہ کمزور ایمان ہے۔
رمضان کے روزے فرض کیے جانے کی غرض وغایت ہی یہی ہے کہ صفت تقویٰ عطا ہو جائے یعنی روحیں ،اندر کا انسان بہر آشنا ہو سکے ،پھل پھول سکے اپنی خوشبو دے سکے اور اپنے کمال کو پاسکے ۔
یہ مہینہ صرف روزوں کا نہیں حقیقی تبدیلی کا مہینہ ہے ۔یہ ایک بھٹی ہے جس طرح سونے کو بھٹی میں ڈالا جائے تو اس کا کھوٹ نکل جاتا ہے ۔اس طرح رمضان کے تیس دن ایک بھٹی ہے ۔اس میں سے مومن کندن بن کر نکلتا ہے ۔
اللہ کریم اس پر استقامت دے اور آئندہ نیکی پر کار بند رہنے کی توفیق عطا فرمائیں تو بندہ روزے کے مقصد کو پا گیا۔اللہ کریم تم سے بیگار نہیں لینا چاہتے ،تم پر بوجھ نہیں لادنا چاہتے ،بلکہ تمہیں وہ طرز عمل بتارہے ہیں جس میں تمہیں اللہ سے ایک خالص تعلق پیدا ہوجائے گا ،تم اللہ سے محبت کرنے لگو ،اللہ کو چاہنے لگو اور اس حد تک اللہ کے طالب بن جاؤ کہ تمہیں اللہ کی نافرمانی کا تصور بھی نہ آئے ۔
انسان کو مجبور کرنے یا اس پر مصیبت ڈالنے یا اس پر بوجھ ڈالنے کے لیے نہیں بلکہ یہ تونری آسانیاں ہیں ۔
آپ معاشرے میں اور زندگی میں دوسرے طریقوں کو بھی آزما کر دیکھ لیں اور اسی طرح کام کو شرعی طریقے سے بھی کرکے دیکھ لیں تو شرعی طریقے سے کام کرنا غیر شرعی طریقے کی نسبت آسان ہو گا۔اس میں آسانی بھی ہے ،اس میں اللہ کی رحمت بھی ہے اور اس میں اللہ کی یاد قدم قدم پہ وابستہ ہے ایک ایک دم کے ساتھ وابستہ ہے ۔

ہم جب کوئی کام اللہ کے حکم کے مطابق کر رہے ہیں،نبی کریم علیہ وسلم کی سنت کے مطابق کررہے ہیں تو اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد بھی اس میں دم دم کے ساتھ وابستہ ہے اور یہی مقصد حیات ہے ۔یہ سعادت ہے کہ ہم سب کو اللہ کریم سے اتنا تعلق پیدا ہو جائے ،اتنی محبت پیدا ہو جائے ،جنوں کی حد تک عشق پیدا ہو جائے کہ اللہ کی نافرمانی برداشت نہ کرسکیں۔

Browse More Islamic Articles In Urdu