مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کو اس وقت دس خطرات لاحق ہیں

صحافی اسد اللہ خان نے اپنے حالیہ کالم میں مولانا کے آزادی مارچ اور دھرنے کو درپیش خطرات سے آگاہ کر دیا

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین بدھ 16 اکتوبر 2019 12:16

مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کو اس وقت دس خطرات لاحق ہیں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 16 اکتوبر 2019ء) : جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے خلاف آزادی مارچ کرنے اور دھرنا دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ جس کے بعد سے تیاریاں تو جاری ہیں ہی لیکن مولانا کے آزادی مارچ اور دھرنے کی کامیابی پر کئی سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ اس حوالے سے صحافی اسد اللہ خان نے اپنے حالیہ کالم میں مولانا کے دھرنے کو درپیش دس خطرات سے آگاہ کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ ایک تو یہ کہ پاکستان میں کوئی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جاسکتی جس میں کوئی سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر اپنے بل بوتے پر حکومت کو گھر بھیجنے میں کامیاب ہوئی ہو۔ دوسرا یہ کہ متحدہ اپوزیشن کے بغیر کوئی جماعت تنہا حکومت نہیں گرا سکتی۔ایسی صورتحال میں کہ جب مولانا کو دھرنے کے لیے کسی بڑی سیاسی جماعت کا عملی تعاون حاصل نہ ہو اور پیپلز پارٹی اور ن لیگ مارچ سے بڑھ کے کسی عمل کو غیر جمہوری طرز عمل مانتی ہوں ۔

(جاری ہے)

ایسے میں ایک اکیلی جماعت دباؤ کی وہ کیفیت پیدا ہی نہیں کر سکتی کہ حکومت وقت دم دبا کر بھاگ نکلے۔ انہوں نے کہا کہ جس مارچ یا دھرنے میں عام لوگ حکومت وقت کیخلاف غصے کا اظہار کرتے ہوئے باہر نکل آئیں اورکال دینے والے کسی گروہ کی طاقت بن جایں وہاں کامیابی کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔کیا مولانا کے دھرنے میں ان کے اپنے جانثاروں اور کارکنوں کے علاوہ عام لوگ ، عورتیں اور مرد شہری پھول ہار لیے قافلے کے شرکاء کااستقبال کرتے اور اپنے اپنے بستر اٹھائے ڈی چوک پہ پہنچتے نظر آئیں گے؟ کسی بھی تحریک کی کامیابی کا انحصار اس کے مطالبات پر ہوتا ہے ۔

جس کیلئے ضروری ہے کہ وہ مبہم اور غیر واضح نہ ہوں۔ مولانا نے نہ تو کوئی درخواست دی اورنہ ہی ان کے پاس کوئی ثبوت ہے جس سے ان کا احتجاج کمزور پڑ سکتا ہے۔ مولانا کا ایک نعرہ ناموس رسالتؐ کا بھی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان بھر میں اس وقت رائے عامہ حکومت کیخلاف دکھائی نہیں دیتی کیوں کہ ایسا کوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا جس کا الزام حکومت وقت کو دیاجا سکے۔

کسی بھی تحریک کی کامیابی کے امکانات اس وقت بڑھ جاتے ہیں جب میڈیا اس کی آواز بن جائے ۔ پاکستان میں اس وقت میڈیا مولانا کی حمایت میں کھڑا نظر نہیں آتابلکہ بے شمار سوالات اٹھاتا دکھائی دیتا ہے۔ مولانا کو اپوزیشن کی سیاست کا تجربہ نہیں۔تیس سال سے وہ حکومت میں چلے آ رہے ہیں۔ ایک بہت اہم بات یہ بھی ہے کہ طویل دھرنے کیلئے لمبے چوڑے اخراجات کون پورے کریگا۔

سفری انتظامات کے بعد ، خیموں اور بستروں کے انتظامات، کھانے پینے اور ادویات کے انتظامات۔کنٹینر، گاڑیوں اور بجلی کے انتظامات۔ ان سب کیلئے روپوں کے ضرورت ہے۔ اسد اللہ خان نے کہا کہ مولانا کے پاس وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کا کوئی آئینی راستہ موجود نہیں اور اس بات کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ عمران خان اس دھرنے سے اتنا گھبرا جائیں کہ سعودی عرب سے ایک جہاز ادھار لے کر راتوں رات ملک سے فرار ہو جائیں۔ جبکہ آخری نقطہ یہ کہ کیا مولانا کے لیے جمہوری راستہ موجود نہ دیکھ کر فوج مارشل لا لگا دے گی؟ اس کا اگر کوئی صفر اعشاریہ صفرایک فیصد امکان بھی نظر آتا ہے تو بتا دیجئیے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں