وزیراعظم عمران خان کی زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت شفاف تحقیقات اور احتساب کیلئے پر عزم ہے، شہزاد اکبر

ہفتہ 16 اکتوبر 2021 15:10

وزیراعظم عمران خان کی زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت شفاف تحقیقات اور احتساب کیلئے پر عزم ہے، شہزاد اکبر
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 اکتوبر2021ء) وزیراعظم عمران خان کی زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت شفاف تحقیقات اور احتساب کیلئے پر عزم ہے، شوگر کمیشن کی رپورٹ  کی روشنی میں ایف بی آر نے چینی بنانے والے کارخانوں کے پانچ سالہ آڈٹ سے 619ارب  روپے ریکور کئے جبکہ مسابقتی کمیشن نے شوگر مافیا کی کارٹلائزیشن کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 44ارب روپے اور سٹے بازوں سے جرمانے کی مد میں 13.8ارب روپے ریکور  کئے، وزیراعظم کا وژن ہے کہ کسی بھی معاملے کے احتساب کیلئے کھلی تحقیقات ہونی چاہئے جس سے شفافیت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔

وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے ہفتہ کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کسی بھی طرح کی بدعنوانی کے احتساب کیلئے کھلی تحقیقات پر یقین رکھتے ہیں تاکہ شفافیت کو یقینی بنایا جاسکے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ جب کسی بھی معاملہ کی تحقیقات کی جاتی ہیں تو اس سے اصل صورتحال کا پتہ چلتا ہے اور سارے عمل کو اوپن کر کے شفافیت لائی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شفاف تحقیقات اور احتساب تحریک انصاف کی حکومت کا عزم ہے،چینی کے معاملہ میں جب شکایات موصول ہوئیں تو وزیراعظم عمران خان نے پہلے ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جس کی تجاویز کی روشنی میں کابینہ نے انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت ایک کمیشن تشکیل دیا جس نے تحقیقات کیں تو ہوش ربا انکشافات ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ انکوائری کمیشن نے اپنی تحقیقات کی بنیاد پر مختلف سفارشات اور تجاویز مرتب کیں تاکہ غلط کام کرنے والوں کے خلاف کارروائی کر کے نظام میں بہتری لائی جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ شوگر کمیشن کی رپورٹ  کی روشنی میں کئے گئے اقدامات کے تحت ایف بی آر نے چینی بنانے والے کارخانوں کے پانچ سالہ آڈٹ سے 619ارب  روپے ریکور کئے جبکہ مسابقتی کمیشن نے شوگر مافیا کی کارٹلائزیشن کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 44ارب روپے کی ریکوری کی اسی طرح سٹے بازوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے جرمانے کی مد میں 13.8ارب روپے ریکور  بھی کئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ شوگر انڈسٹری کی 89 صنعتوں کا آڈٹ کیا گیا جس میں 67 کا آڈٹ مکمل ہو چکا ہے جبکہ بعض ملز کی طرف سے مقدمات بھی کئے گئے جن میں کچھ شریفوں کی ملز بھی شامل ہیں۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ 31ارب روپے کے کیسز زیر التوا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ٹیکس بیس میں اضافہ کیا اورٹیکس کی مد میں گزشتہ سال دو گنا زیادہ ریکوری کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ سی سی پی کی جانب سے کارٹلائزیشن کے خلاف کارروائی دوسری کامیابی ہے ، جس میں 44ارب روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا ۔

جعل سازی اور جعلی اکائونٹ کے حوالہ سے شریفوں کی بلیک منی کے انکشافات سب سے سامنے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سٹے بازوں کے خلاف آپریشن کیا گیا ، ایف بی آر نے ایف آئی اے کو جو اعدادو شمار ظاہر کئے ہیں ان کے مطابق 13.8ارب روپے سٹے بازوں سے ریکور کئے گئے ہیں۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ کسانوں کو گنے کے مقرر نرخوں کے مطابق ریٹ ادا نہیں کئے گئے جو قانونی جرم ہے۔

جب حکومت نے یہ اقدام اٹھایا تو کسانوں کو تمام ادائیگیاں کی گئیں۔ ان تمام اقدامات میں کچھ قانونی پیچیدگیاں بھی سامنے آتی ہیں جن کی وجہ سے یہ مافیا عدالتوں کا سہارا لے لیتے ہیں ، امید ہے کہ ان معاملات میں بھی کامیابی ملے گی اور قیمتیں لاگو کرنے کا عمل بہتر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ شوگر ملوں کی کرشنگ سے لیکر تمام پیداواری عمل کی نگرانی جدید آلات پرمبنی ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے ذریعے کی جائے گی۔

جس کیلئے وزیر اعظم نے بھی ہدایات جاری کی ہیں۔ اس نظام سے ٹیکس چوری کا قلع قمع کیا جاسکے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس نظام کی تیاری کے حوالے سے بھی ہمیں بہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود ابھی بھی کچھ کیسز کا سامنا ہے لیکن اکثریت شوگر ملوں میں آئندہ سیزن تک ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم لاگو ہو جائے گا۔ اس حوالہ سے حکومت بھی گنے سے پیدا ہونے والی چینی کا حجم جانچنے کیلئے لیبارٹریاں قائم کر رہی ہے، سیس ٹیکس پہلے ہی نافذ تھا تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ  کس مل نے کتنے گنے سے کتنی چینی پیدا کی، لیکن شوگر مافیا اس عمل پر بھی عملددرآمد نہیں کر رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ کامیابیاں شوگر کمیشن کی تحقیقات کا نتیجہ ہیں۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی اجارہ داری کے حوالہ سے بھی فیڈرل انکوائری کمیشن بنایا گیا ، آئل مارکیٹنگ کمپنیاں جہازوں کی برتھنگ  کی تاخیر  کر کے تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام تک نہیں پہچنے دے رہی تھیں ، اس کی تحقیقات بھی شروع کر دی گئی ہیں۔ دوہزار سے زائد ایسے پٹرول پمپ بند کر دیئے گئے ہیں جہاں غیر قانونی طریقے سے پٹرول فروخت ہو رہا تھا اور اس کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔

آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے حوالے سے بھی اقدامات کئے گئے۔ جس کے نتیجہ میں پی ایس او کی سیل میں 36فیصد تک کا اضافہ ہوا ،شیل کمپنی کی سیلز میں 28فیصد اضافہ ہوا اور دیگر کمپنیوں کی بھی سیلز بڑھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قیمت کم ہونے پر تیل کی برتھنگ نہ کرنے والی آئل کمپنیوں کے اس عمل کی وجہ سے 3.5ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، اس کی بھی تحقیقات ہو رہی ہیں اور ذمہ داروں کا تعین کر کے یہ پیشہ ان کمپنیوں سے وصول کیاجائیگا۔

پٹرول پمپ کے لیجر میں بھی گھپلے پائے گئے اس کی بھی ایف آئی اے کو تحقیقات کا کہا گیا ہے ۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ ایک تیسری انکوائری براڈ شیٹ کے حوالہ سے تھی ، یہ غیر قانونی کمپنی مشرف دور میں آف شور کمپنیوں سے ریکوائری کیلئے ہائر کی گئی لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا بلکہ 40ارب روپے جرمانے کی مد میں ادا کرنے پڑے، براڈ شیٹ نے 2009سے 2015تک کارروائی میں پاکستان کا مقدمہ صحیح طریقے سے پیش ہی نہیں کیا نیب نے جب انکوائری کی تو معلوم ہوا براڈ شیٹ نے اس حوالے سے کو ئ کردار ادا نہیں کیا کیونکہ معاہدے میں براڈ شیٹ کی ذمہ داری کا تعین ہی نہیں تھا اس کی تحقیقات بھی ایف آئی اے کو سونپی گئی ہے اور ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں تاکہ ذمہ داروں کا تعین کر کے یہ رقوم ان سے وصول کی جا سکے۔

راولپنڈی رنگ روڈ کی تحقیقات کے حوالہ سے شہزاد اکبر نے کہا کہ انجینئرنگ کی خامیوں کی وجہ سے جو ایکسٹرا لوپس بنائے گئے تھے ان کو ختم کر دیا گیا ہے، اس حوالے سے اینٹی کرپشن پنجاب انکوائری کر رہا ہے ، اس سال نئی رنگ روڈ کا افتتاح وزیر اعظم کر ینگے۔ایک سوال کے جواب میں بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا کہ شوگر کمیشن کی تحقیقات کے بعد سامنے آنے والا 619ارب روپے کا وہ اضافی ٹیکس ہے جو عوام پر نہیں لگ رہا تھا۔

آئی ایم ایف نے ہمیشہ ٹیکس بڑھانے پر زور دیا لیکن ہماری حکومت ٹیکس بڑھانے کی بجائے ٹیکس بیس کو بڑھا رہی ہے جس سے ریونیو خودبخود بڑھے گا ۔ انہوں نے ایف بی آر کی طرف سے ایک پریس ریلیز کا حوالہ بھی دیا جس میں کہا گیا ہے کہ فائلرز کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے ریونیو میں 43فیصد اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی تحقیقات ہوتی ہیں ان کا مقصد خامیوں کی نشاندہی کرنا اور درستگی کیلئے اقدامات تجویز کرنا ہوتا ہے اس پرکسی کو اختلاف نہیں ہونا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ چینی کی قیمت 89روپے مقررکی جسے حکومت نے لاگو کرنا ہوتا ہے لیکن کچھ منافع خور عدالت چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے حکومت کا نفاذ کا عمل روک جاتا ہے۔ شہزاد اکبر نے کہا گذشتہ روز بھی وزیر اعظم نے اس حوالہ سے اقدامات جاری کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایگزیکٹو ، پارلیمان اور عدالیہ کو ایسے معاملے پر مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے ، اگرکسی کا حق متاثر ہو تو وہ عدالت ضرور جائے لیکن اس کا فیصلہ جلد ہونا چاہئے۔

ایک سوال کے جواب میں معاون خصوصی نے کہا کہ رنگ روڈ تحقیقات میں زلفی بخاری اور غلام سرور خان سمیت کسی سیاسی شخصیت کا نام نہیں ہے اور یہ نام صرف میڈیا میں ہی گردش کرتے رہے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری اسی نیب آرڈینس  کا فائدہ لیتے ہوئے عدالت گئے تاہم ان کی درخواست مسترد ہو گئی، وہ اپیل میں جاتے ہیں یا نہیں یہ ان کا فیصلہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ ماضی میں حکومت اور اپوزیشن کا لوٹ مار کا اتحاد تھا، اس وقت نیب قوانین پر کسی کو اعتراض نہیں تھا۔ احتساب عدالتوں کی کارروائی کی آڈیو ویڈیو  ریکارڈنگ کے حوالہ سے جو اعتراضات ہیں ان پر بات چیت جاری ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں