آئی ایم ایف کے علاوہ کسی پلان بی کا تصور نہیں کیا جاسکتا،وزیرخزانہ

منگل 23 اپریل 2024 23:05

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 23 اپریل2024ء) وزیرخزانہ اورنگزیب نے کہا کہ گزشتہ سال ہمارے پاس سٹیٹ بینک کے ذخائر 3.4 ارب ڈالر تھے جو کہ صرف 15 دن کی درآمدات کی رقم تھی، اب ہمارے پاس 8 ارب ڈالرہے ،مالی ذخائر ہیں اورمزید بہتری کی امید ہے۔ معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے ، زرعی نمو میں اضافہ ہورہا ہے، آئی ایم ایف سے نئے پروگرام پر بات ہورہی ہے۔

آئی ایم ایف کے علاوہ کسی پلان بی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔اسلام آباد میں لیڈرز ان اسلام آباد سمٹ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف رواں ماہ کے آخر میں قرض کی قسط جاری کر سکتا ہے، معاشی استحکام کیلئے آئی ایم ایف کا پروگرام ضروری ہے، سٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، سٹاک مارکیٹ میں غیر ملکی سرمایہ کاری آنا خوش آئند ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے، جون تک زرمبادلہ ذخائر 9 سے 10 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ واشنگٹن کا دورہ مکمل کر کے آیا ہوں، آئی ایم ایف قرض کیلئے آخری راستہ ہوتا ہے، آئی ایم ایف قرض پروگرام میں ہوں تو کوئی پلان بی نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات ناگزیر ہیں، ٹیکس کی شرح میں اضافہ ضروری ہے، سب سے پہلے ٹیکس کا معیشت میں حصہ بڑھانا چاہتے ہیں، ملکی معیشت میں ٹیکس کا حصہ 9فیصد ہے جو خطے میں سب سے کم ہے۔

محمد اورنگزیب کا مزید کہنا تھا کہ دوسراتوانائی کے نقصانات کم کرنے کیلئے سنجیدہ کوشش کرنا ہوگی، تیسرا بڑا مسئلہ سرکاری اداروں کا نقصان کم کرنا ہے، نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری بھی ضروری ہے۔اس موقع پر وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 1997 میں سب سے پہلے لانگ ٹرم پلان ویژن 2010 دیا، دو سال بعد مارشل لاء لگا اور اس ویژن کو اٹھا کر پھینک دیا گیا،ملائیشیا نے ویژن بنایا اور اس پر عمل کیا کامیاب ہوا، 2013 میں ویژن 2025 پر کام کا آغاز کیا، تمام صوبوں کو ساتھ لیا حالانکہ وہاں دیگر جماعتوں کی حکومت تھی، 2018 میں ویژن 2025 کو بھی اٹھا کر پھینک دیا گیا، چین نے بڑے پیمانے پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی حامی بھری تھی،2018 کے بعد سب سے پہلا دھچکا چینی سرمایہ کاری کو لگا، پالیسیوں کے عدم تسلسل کی وجہ سے پاکستان کی معاشی ترقی کو نقصان پہنچا، کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے آپ کو کم از کم 10 سال مسلسل چاہیے،انڈیا، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں حکومتوں کو 10 سے 15 سال کا وقت ملا ، سیاسی عدم استحکام معاشی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، پالیسیوں کے عدم تسلسل کی وجہ سے پاکستان 75 سالوں سے نازک دور سے گزر رہا ہے، اگر پاکستان 9 فیصد کی شرح نمو سے ترقی کرے گا تو 2047 میں پاکستان بڑی معیشت بن سکتا ہے، پاکستان پھر تین ہزار ارب ڈالر کی معیشت بن سکتا ہے، خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا قیام ملک میں سرمایہ کاری لایا گیا ہے، سرمایہ کاری کونسل کے ذریعے ون ونڈو ہوگا، کئی کاروبار پاکستان میں ہیں جن کی ویلیو چین نہیں ہے، گلاب کی پتیاں قبروں اور جلسوں میں استعمال ہوتی ہیں، ویلیو چین اگر مکمل ہو تو یہی گلاب کا پھول ایکسپورٹ کیا جاسکتا ہے، ہر کلسٹر میں ویلیو چین کا ہونا ضروری ہے ہم گلوبل سپلائی چین سے منسلک نہیں ہیں، ہر اچھی معیشت نے ایکسپورٹ کے ذریعے معاشی ترقی کی، پاکستان میں ڈومیسٹک ضرورت کا خیال زیادہ رکھا گیا برآمدات پر توجہ نہیں دی، بڑے کاروباری گروپس سے کوئی پوچھے کہ ان کی ایکسپورٹ کتنی ہیں۔

چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری میں کمی کے باعث فی کس آمدنی کم ہو رہی ہے،ملکی تاریخ میں مہنگائی سب سے بلند سطح پر ہے،پاکستان کو درپیش مسائل میں اندرونی اور علاقائی مسائل سب سے اہم ہیں،پاکستان کو ماحولیاتی میدان میں بہت سے مسائل کا سامنا ہے، جس میں سیلاب، بارشیں، بڑھتا درجہ حرارت اور دیگر مسائل شامل ہیں۔

دہشت گردی کے بعد ڈکیتی، گاڑی چوری، موبائل فون کی چھینا جھپٹی اور دیگر جرائم بڑھ رہے ہیں۔انتخابات کے بعد سیاسی طاقتوں کے درمیان اختلاف موجود ہیں جس کو ختم کرنے کے لئے مذاکرات شروع کرنا ہونگے۔آپس کے اختلافات ختم کر کے ملک کے اصل مسائل ہیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ایک دھائی تک لڑنے کے بعد میں یہ بات کر رہا ہوں، دہشت گردی کے بعد دیگر جرائم بڑا مسئلہ ہے۔

ماحولیاتی مسائل کاباعث سیلاب، بارشیں، بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور دیگر مسائل سے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔افراط زر ملکی تاریخ میں سب سے بلند سطح پر ہے پاکستان میں سرمایہ کاری میں کمی کی وجہ سے فی کس آمدنی میں کمی ہورہی ہے۔ چیئرمین سینیٹ کا کہنا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ بند کرانا دنیا کی سب سے اہم ترجیح ہونی چاہیے۔بزنس سمٹ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق گورنرسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ پاکستان نے ادویات سازی میں ایف ڈی اے اور عالمی ادارہ صحت کے معیارات کو لاگو نہیں کیا جس کی وجہ سے ادویات کی برآمدات 400 ملین ڈالر سے زائد نہیں ہے۔ جبکہ بھارت 28 ارب اور بنگلہ دیش 4 سے 5 ارب ڈالر کی برآمد کرتا ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں