پنجاب حکومت کاساہیوال واقعہ میں جاں بحق ہونیوالے خلیل کے اہل خانہ کیلئے 2کروڑ مالی امداد ،بچوں کی مکمل کفالت کا اعلان

ساہیوال آپریشن انٹیلی جنس بیسڈ تھا جو اعلیٰ خفیہ ادارے اور سی ٹی ڈی نے مشترکہ طور پر کیا ، ذیشان کا تعلق کالعدم تنظیم داعش سے تھا ذیشان کے گھر میں دہشت گرد موجود ہونے کے مصدقہ شواہد ملے ہیں، جے آئی ٹی اس بات کا تعین کریگی خلیل کا ذیشان کے ساتھ کیا تعلق تھا سی ٹی ڈی نہیں بلکہ جے آئی ٹی کے موقف کو تسلیم کرنا ہے ،رپورٹ پر من و عن عملدرآمد ہوگا ،گوجرانوالہ میں خود کو اڑانے والے دہشت گرد ذیشان کے ساتھی تھے ،وزیر قانون راجہ بشارت کی فیاض الحسن چوہان، محمود الرشید ، میاں اسلم اقبال اور دیگر کے ہمراہ 90شاہراہ قائد اعظم پر پریس کانفرنس

اتوار 20 جنوری 2019 19:00

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 جنوری2019ء) پنجاب حکومت نے ساہیوال واقعہ میں جاں بحق ہونے والے خلیل کے اہل خانہ کیلئے 2کروڑ روپے کی مالی امداد اور بچوں کی مکمل کفالت کا اعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ ساہیوال آپریشن انٹیلی جنس بیسڈ تھا جو اعلیٰ خفیہ ادارے اور سی ٹی ڈی نے مشترکہ طور پر کیا ، ذیشان کا تعلق کالعدم تنظیم داعش سے تھا اور اس کی گاڑی دہشتگردوں کے زیر استعمال رہی ،ذیشان کے گھر میں دہشتگرد موجود ہونے کے مصدقہ شواہد ملے ہیں، جے آئی ٹی اس بات کا تعین کرے گی کہ خلیل کا ذیشان کے ساتھ کیا تعلق تھا اور وہ اس فیملی کے ساتھ جارہا تھا، حکومت نے سی ٹی ڈی نہیں بلکہ جے آئی ٹی کے موقف کو تسلیم کرنا ہے اور اس کی رپورٹ پر من و عن عملدرآمد ہوگا ،گوجرانوالہ میں دہشتگردو ں کا گھیرائو اسی آپریشن کا تسلسل تھا لیکن خلیل او راسکی فیملی کی ہلاکت نے اس آپریشن کو چیلنج کردیا ہے ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار وزیر قانون راجہ بشارت نے صوبائی وزراء فیاض الحسن چوہان، میاں محمود الرشید ، میاں اسلم اقبال اور دیگر کے ہمراہ 90شاہراہ قائد اعظم پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ وزیرقانون راجہ بشارت نے کہا کہ واقعہ میں جاں بحق ہونے والے خلیل کے اہل خانہ کی درخواست پر مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اس میں ایک لفظ بھی کم یا زیادہ نہیں کیا گیا ،آپریشن میں حصہ لینے والے اہلکاروں کے سپروائزر کو بھی معطل کردیا گیا ہے جبکہ سی ٹی ڈی اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے خلیل کے لواحقین کے لیے 2 کروڑ روپے کی مالی امداد اور بچوں کے لیے مفت تعلیم اور ان کی کفالت کا اعلان کیا ہے ۔مالی امداد انسانی زندگی کا کامداوا تو نہیں کرسکتی لیکن حکومت اپنی ذمہ داری نبھائے گی ۔صوبائی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کے موقف کے مطابق ساہیوال میں کیا گیا آپریشن سوفیصد انٹیلی جنس بنیادوں، ٹھوس شواہد ،مکمل معلومات اور ثبوتوں کی بنیاد پر کیا گیا۔

ذیشان کے داعش کے نیٹ ورک کے ساتھ تعلقا ت تھے اور یہی نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی کے افسر ، علی حید رگیلانی کے اغواء، فیصل آباد میں دو پولیس اہلکاروں کے قتل میں ملوث ہے ۔ انہوںنے کہا کہ 13جنوری کو ایک ہنڈا گاڑی ساہیوال میں گئی اور جب اس کو سپاٹ کیا گیا تو سیف سٹی کے کیمروں نے ذیشان کی گاڑی کی بھی نشاندہی کی جو دہشتگردوں کی گاڑی کے ساتھ تھی ۔

18جنوری کو ذیشان کے گھر دہشتگرد آئے اور اس کا 13اور18جنوری کو کیمروں کے ذریعے معائنہ کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ ذیشان دہشتگردوں کے ساتھ کام کر رہا ہے ۔ انہوںنے کہا کہ ذیشان کے گھر میں اسلحہ اوربارود تھا لیکن گنجان آباد علاقے میں گھر ہونے کی وجہ سے کوئی آپریشن نہیں کیا گیا تاکہ علاقے میں کوئی انسانی جانوں کو نقصان نہ ہو اور اس کا شہر سے باہر جانے کا انتظار کیا گیا ۔

19جنوری کو سفید رنگ کی گاڑی کو مانگا کے مقام پر سپاٹ کیا گیا اورایجنسیوں کی اطلاع پر سی ٹی ڈی نے گاڑی کو روکا جو بارود لے کر جارہے تھی۔ گاڑی کے شیشے کالے ہونے کی وجہ سے پیچھے بیٹھی خواتین اور بچے نظر نہیں آئے ۔ انہوںنے کہا کہ سی ٹی ڈی کے موقف کے مطابق پہلا فائر ذیشان نے کیا لیکن جے آئی ٹی اس کا تعین کرے گی ،جے آئی ٹی اس بات کابھی تعین کرے گی کہ خلیل اور اس کی فیملی ذیشان کے ساتھ کیوں جارہی تھی اور ان کے آپس میں کیا تعلقا ت تھے ۔

انہوںنے کہا کہ گاڑی سے دو خود کش جیکٹس، آٹھ ہینڈ گرینڈ،دو پستول اور گولیاں برآمد ہوئی ہیں اور یہ کہاں سے آئے اور کس لئے جارہے تھے اس کی تحقیقات ہوں گی ۔ انہوں نے کہا کہ گوجرانوالہ میں گھیرائو کرنے پر خود کو اڑانے والے دہشتگردعبد الرحمن اور کاشف ساہیوال میں مارے جانے والے ذیشان کے ساتھی اور گوجرانوالہ میں کارروائی اسی آپریشن کا تسلسل تھا لیکن خلیل او راسکی فیملی کی ہلاکت نے اس آپریشن کو چیلنج کردیا ہے ۔

ہمیں متاثرہ خاندان سے دلی ہمدردی ہے اور متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کیا جائے گا اور کسی سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی ۔ حکومت کی کریڈیبلٹی ہے کہ ہم نے بلا تفریق او ربلا امتیاز انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں او رذمہ داروںکو کیفر کر دار تک پہنچایا جائے گا ۔ انہوںنے کہا کہ ہم اس پریس کانفرنس میں کسی کو چارج شیٹ نہیں کر رہے ، جو خود کش جیکٹس برآمد ہوئی ہیں وہ انہوںنے پہن نہیں رکھی تھیں بلکہ وہ گاڑی کے پیچھے پڑی تھیں ،سیف سٹی کیمروں کے ذریعے گاڑیوں کے ٹریس ہونے کی بات ہے ۔

انہوںنے کہا کہ جس طرح میڈیا کے اور عوام کے تحفظات ہیں حکومت کو اس سے زیادہ احساس ہے ، ہم کوئی من گھڑت کہانی نہیں سننا چاہتے بلکہ جو جے آئی ٹی کی رپورٹ ہو گی اس پر من و عن عملدآمد کیا جائے گا اور تحفظات دو رکئے جائیں گے۔ ہم اس پریس کانفرنس میں وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ کے نمائندے کے طو رپر بیٹھے ہیں ہم نے اس کیس میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہاں سی ٹی ڈی یا کسی کادفاع نہیں کر رہے بلکہ ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا ، جے آئی ٹی کی اڑتالیس گھنٹوں میں رپورٹ آئے جائے گی جو آپ سے شیئر کریں گے جو بھی تحفظات ہوں گے انہیں دور کیا جائے گا ۔ انہوںنے جے آئی ٹی کی تشکیل کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ قواعد و ضوابط کے مطابق جے آئی ٹی کا اعلان ہوم ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کیا جا تاہے ۔

آئی جی آفس سے شاید میڈیا کو کچھ چلا گیا کیونکہ میں میانوالی سے آرہا تھا اور ہوم سیکرٹری سے رابطہ کیا گیا تو وہ گوجرانوالہ سے آئے اور قواعد و ضوابط کے مطابق غیر جانبدار افسران پر مشتمل جے آئی تشکیل دی گئی ۔ا نہوں نے کہا کہ ہم سی ٹی ڈی کے موقف کو کیوں مانیں ہم نے جے آئی ٹی کے موقف کو ماننا ہے ۔حکومت نے اپنے طور پرایف آئی درج نہیں کی بلکہ متاثرہ خاندان کی جانب سے جو درخواست دی گئی اسکے مطابق من و عن ایف آئی درج کی اور ایک لفظ بھی تبدیل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ماڈل ٹائون کے سانحہ اور ساہیوال کے واقعہ میں فرق ہے ۔ اس سانحے میں وزیر اعلیٰ کے بقول انہیں اڑتالیس گھنٹے علم نہیں ہو اجبکہ یہاں وزیراعلیٰ چھ گھنٹوں میںمتاثرہ خاندان کے گھر پہنچ گئے ۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں