فائر بندی سے آگے بھارت کیساتھ مذاکرات ،دیگر اقدامات کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فسطائی اقدامات کی تو ثیق سمجھا جائیگا، سردار مسعود خان

بھارت اگر بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے تنازعہ کشمیر کے حل میں سنجیدہ ہے تو وہ مقبوضہ کشمیر میں جاری جنگی جرائم، آبادی کے تناسب میں طاقت کے زور پر تبدیلی، کشمیریوں کی زمین ہتھیانے کا سلسلہ بند کرے، صدر آزاد کشمیر

بدھ 12 مئی 2021 19:44

مظفرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 مئی2021ء) لائن آف کنٹرول پر پاکستان اور بھارت کی فوجوں کے درمیان فائر بندی کو ایل او سی کے قریب آباد آزاد کشمیر کے چھ لاکھ سے زیادہ شہریوں کی زندگی اور جائیداد کو محفوظ کرنے اور اسی طرح ایل او سی کی دوسری جانب آباد مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کیلئے اہم قرار دیتے ہوئے صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان نے کہا کہ فائر بندی سے آگے بھارت کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات یا اس سے جڑے دیگر ضمنی اقدامات کو بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں فسطائی اقدامات کی تو ثیق سمجھا جائیگا۔

بھارت اگر بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے تنازعہ کشمیر کے حل میں سنجیدہ ہے تو وہ مقبوضہ کشمیر میں جاری جنگی جرائم، آبادی کے تناسب میں طاقت کے زور پر تبدیلی، کشمیریوں کی زمین ہتھیانے کا سلسلہ بند کرنے، مقبوضہ کشمیر اور بھارت کی جیلوں میں پابند سلاسل ہزاروں سیاسی قیدیوں کو رہا کرے، کشمیریوں کی شناخت اور ثقافت مٹانے کے لیے ثقافتی یلغار روکے، دو سال سے جاری محاصرہ ختم کرے اور مقبوضہ کشمیر کی پانچ اگست 2019 سے پہلے والی پوزیشن بحال کرنے کے علاوہ بھارت کے 32 لاکھ شہریوں کو دیئے گئے کشمیر کے ڈومیسائل منسوخ کرے بھارت کے ساتھ کسی رسمی یا غیر رسمی بات چیت سے پہلے یہ وہ کم سے کم اعتماد سازی کے اقدامات ہیں جن کا ہونا مذاکرات کے عمل کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان کے ایک انگریزی میگزین کو تفصیلی انٹرویو دیتے ہوئے صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ پاکستان کو اپنے اس اصولی موقف پر قائم رہنا چاہیے کہ بھارت کے ساتھ بات چیت صرف اسی صورت میں ہو گی جب وہ مقبوضہ کشمیر کی اگست 2019 سے پہلے والی پوزیشن بحال کرے گا۔ بھارت کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات شملہ اور لاہور مذاکرات اور بعد میں 1980 کی دہائی میں شروع ہونے والے مذاکرات جو 2008 میں تعطل کا شکار ہوئے کا حوالہ دیتے ہوئے صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ یہ سب بے کار اور لا حاصل مشق تھی جسے بھارت نے کشمیر سے دنیا کی توجہ ہٹانے اور وہاں اپنا غیر قانونی قبضہ مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا۔

انہوں نے کہا کہ 2016 میں برہان مظفر وانی کی شہادت اور اب 2019 میں بھارت کا مقبوضہ کشمیر پر یک بار حملے اور محاصرے کے بعد کشمیر ایک بار پھر عالمی تنازعہ کے طور پر دنیا میں اجاگر ہوا ہے۔ پچاس سال کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا۔ برطانیہ، یورپ کی پارلیمانز اور امریکی کانگریس میں بار بار اسکی بازگشت سنائی دی، آسیان ممالک کی پارلیمانز اس پر بات کر رہی ہیں۔

عالمی ذرائع ابلاغ کھل کر اس پر لکھ رہے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر اہم تھینک ٹینکس اور انسانی حقوق کے ادارے اس کو مسلسل موضوع بحث بنائے ہوئے ہیں اور یہ سب کچھ بھارت کو سخت ناگوار گزر رہا ہے کیونکہ اسکی مذمت کی جا رہی ہے۔ بھارت نے اپنے آپ کو مقدس گائے کے روپ میں پیش کیا تھا لیکن اب دنیا اس کو مقدس گائے ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اب عالمی سطح پر اس کے ہندو بالا دستی کے نظریہ پر مبنی فسطانیت کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانیت کے خلاف جرائم میں استثنیٰ مانگ رہا ہے اور اس کیفیت میں بھارتی حکمرانوں کے ساتھ پاکستانی قیادت کا فوٹو سیشن یا پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے کا تاثر اس وقت بھارت کی سب سے بڑی خواہش ہے۔ بھارت کو دباؤ میں رکھنے اور مسئلہ کشمیر کی بات چیت کے ذریعے حل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر موجود رہے۔

مظفر آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں