ضم اضلاع میں فوری طور پر انتظام سول انتظامیہ کے سپرد کیا جائے،ایمل ولی خان

ضم اضلاع کے ایم پی ایز سے ترقیاتی کاموں کی نگرانی کا کام تک نہیں لیا جارہا، 100ارب روپے سالانہ دینے کا وعدہ بھی صرف وعدہ ہی رہا ہے، روز اول سے تاریخی اٹھارویں ترمیم کے حوالے سے مختلف شوشے چھوڑے جارہے ہیں، ترمیم کو چھیڑا گیا تو پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ احتجاج کا میدان راولپنڈی کا لیاقت باغ ہوگا،باچا خان مرکز میں پارلیمانی پارٹی اجلاس و شمولیتی تقریب سے خطاب

منگل 14 جولائی 2020 16:28

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 جولائی2020ء) عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے ایک بار پھر ریاست سے ضم اضلاع کے حوالے سے اپنا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا ہے کہ ضم اضلاع میں پوری طور پر انتظام سول انتظامیہ کے سپرد کیا جائے، ضم اضلاع خیبرپختونخوا کا حصہ بن چکے ہیں لیکن ابھی بھی وہاں انتظام سول انتظامیہ کے حوالے نہیں کیا گیا ہے ۔

باچاخان مرکز پشاور میں صوبائی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس اور ضلع نائب ناظم ہنگو سید عمر کی اے این پی میں شمولیتی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایمل ولی خان نے کہا کہ ہر جگہ ترقیاتی کاموں کا اختیار منتخب نمائندوں کے پاس ہوتا ہے لیکن ضم اضلاع میں انہیں یہ اختیار نہیں دیا جارہا۔ اسکے ساتھ ساتھ 100ارب روپے سالانہ دینے کا وعدہ بھی صرف وعدہ ہی رہا ہے، ابھی تک اس ضمن میں ایک روپیہ تک فراہم نہیں کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ترقیاتی منصوبوں کا اختیار ضم اضلاع کے منتخب نمائندوں کو دیا جائے۔ اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے کہا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم طاقتور حلقوں سے ہضم ہی نہیں ہورہا،جب سے اٹھارویں آئینی ترمیم منظور ہوئی ہے اُسی دن سے اس تاریخی ترمیم کے حوالے سے مختلف شوشے چھوڑے جارہے ہیں،اٹھارواں آئینی ترمیم پاس کرنے والے سیاسی پارٹیوں کو بھی آج تک طاقتور حلقے سزا دیں رہے ہیں ،ایمل ولی خان نے کہا کہ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر اس ترمیم کو چھیڑا گیا تو پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ احتجاج کا میدان راولپنڈی کا لیاقت باغ ہوگا۔

انہوں نے یکساں نصاب و نظام تعلیم کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی معاملہ ہے لیکن وفاق یکساں نصاب تعلیم نافذ کرنے کے غیرآئینی اقدامات اٹھانے کا سوچ رہی ہے جسے ہر گزبرداشت نہیں کیا جائیگا۔ صوبائی حقوق پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ اس صوبے کی بدقسمتی یہ ہے کہ موجودہ حکومت مرکز سے اپنا حصہ اور حق مانگنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

مرکز کے ذمے اس وقت صرف بجلی رائلٹی کے مد میں 550ارب روپے واجب الادا ہے لیکن ایک روپیہ ادا نہیں کیا جارہا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب اگر اپنی ضرورت پوری کرنے کیلئے خیبرپختونخوا کو گندم فراہمی روک سکتی ہے تو بجلی کا پیداواری صوبہ ہونے کے ناطے خیبرپختونخوا کا حق ہے کہ وہ پہلے اپنی ضرورت پوری کرے اور اگر زیادہ ہو تو دوسرے صوبوں کو دے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیڑھ روپے فی یونٹ بجلی پیدا کرنیوالے صوبے کو اپنی بجلی 18اور 20روپے میں فروخت کی جارہی ہے جبکہ ناروا لوڈشیڈنگ نے عوام کا جینا مشکل کردیا ہے۔

۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ضم اضلاع کے طلبہ و طالبات کیلئے فوری طور پر انٹرنٹ سروس فراہم کی جائے۔ ضم اضلاع میں سیکیورٹی صورتحال پر بات کرتے ہوئے ایمل ولی خان نے کہا کہ صوبہ بھر میں ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے اور ہم پہلے ہی متنبہ کرچکے ہیں کہ دہشتگرد ایک بار پھر منظم ہورہے ہیں، ایک سی ایس پی آفیسر کو مارا جاتا ہے لیکن ان کے قاتلوں کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ انتظامیہ کہاں ہی انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اس بار آگ لگی تو گھر کسی کا نہیں بچے گا لیکن اس بار آگ لگانے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جائیگی۔

پشاور میں شائع ہونے والی مزید خبریں