قلعہ سیف اللہ :جمعیت علما اسلام کا مضبوط گڑھ

عام انتخابات میں کلین سوئپ کے مانند ضلع قلعہ سیف اللہ کے جمعیت طلبا اسلام نے بھی کل برتری ثابت کردی

جمعہ 12 نومبر 2021 22:21

قلعہ سیف اللہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 12 نومبر2021ء) جمعیت علما اسلام کا مضبوط گڑھ گزشتہ عام انتخابات میں کلین سوئپ کے مانند ضلع قلعہ سیف اللہ کے جمعیت طلبا اسلام نے بھی کل برتری ثابت کردی اگر ایک جانب 17اکتوبر یوم شہادت ڈاکٹر سرفراز خان ہے تو دوسری جانب 19اکتوبر یوم تاسیس جمعیت طلبا اسلام کی یاد دلاتی ہے جے ٹی آئی ضلع قلعہ سیف اللہ کے پرعزم ضلعی صدر مولوی آدم خان خیرخواہ اور انعام الحق جے یوآئی ضلعی نایب امیر مولوی عبد النافع جنرل سکریٹری جے یو آئی قلعہ سیف اللہ مولوی محمد عظیم کے سرپرستی میں سرزمین قلعہ سیف اللہ پر گلدستہ کے مانند دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کے طلبا پر مشتمل تنظیم کان مھترزئی راغہ باکلزئی کنچوغی مسلم باغ لوی بند شنکئی اخترزئی گوال اسماعیل زئی،جیسے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے باوقار نوجوانوں کا محفل سجا کر یاد ماضی دلادی جے ٹی آئی ضلع قلعہ سیف اللہ کے زیر اہتمام شہید ڈاکٹر سرفراز خان ریلی وکانفرنس کا مہمان خصوصی جمیعت طلبا اسلام کے صوبائی صدر حافظ محمد حسن شہاب۔

(جاری ہے)

جنرل سیکرٹری،شاہ زائد مشوانی سابق صوبائی صدر ضیا الحق سنزری سابق صوبائی صدر صفی اللہ منگل نظام الدین خوستی خواجہ تاج محمد مولوی آدم خان نے پرجوش انداز میں شرکا کی ذہین سازی ۔اکابر کی ماضی ۔ درپیش چیلنجز اور ہماری ذمہ داری پر معنی خیز تقاریر کی اسٹیج سیکرٹری انعام الحق شعرا جمعیت کلیم اللہ مطمئین زین اللہ دلسوز نے تو میلہ ہی لوٹ لی رضاکاروں اور کارکنوں کے محنت اور جوش خروش قابل دیدتھی مقررین نے کہاکہ نوجوان کسی بھی معاشرے کا وہ حصہ ہوتا ہے کہ جو سماج پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت سے بھر پور ہوتا ہے دنیا میں جتنے انقلابات آئے ہیں اس میں نوجوان کا رول سب سیزیادہ ہے ۔

چونکہ نوجوانان مستقبل کے معمار ہوتے ہیں اور انہی نے تمام ذمہ داریوں سے عہدہ براں ہونا ہوتا ہیں اس لیے ان کی تعلیم وتربیت اہم ترین فریضہ ہے ۔ یہ تعلیم وتربیت تین مراحل میں ہوتی ہے، اول گھر، دوم سماج، سوم جامعات۔ بچہ سب سے پہلے والدین اور گھر کے افراد سے شعوری ولا شعوری تعلیم وتربیت پاتا ہے، دوسرے درجہ میں وہ گھر سے باہر گلی ومحلے میں جب قدم رکھتا ہے تو دوست واحباب اور معاشرے کے رویے اس کی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

تیسرے درجہ میں وہ جب کسی مکتب واسکول اور جامعہ میں پہنچتا ہے تو معلم اس کو اپنے قول وفعل سے تعلیم دیتا ہے۔ تب جاکر وہ میدان عمل میں وہ داخل ہوتا ہے اور ذمہ داریوں کو نبھاتا ہے۔ ہم چونکہ دور زوال سے گزر رہے ہیں اگر ہم اپنے ماحول پر نگاہ ڈالیں تو صورتحال سامنے آتی ہے کہ اول تو شرح خواندگی کم ہے جس کی وجہ سے اکثر والدین ناخواندہ ہیں یا اگر خواندہ ہیں تو معاشی مجبوریوں یا اعلی معیار زندگی کی دوڑ نے ان کو اتنا مصروف رکھا ہے کہ وہ بچوں کی تربیت پر توجہ نہیں دے پا رہے ہیں ۔

پھر اس مادہ پرستانہ ماحول سے جو سماج بنتا ہے وہ اس بچہ ونوجوان کو مسلسل یہی پیغام دے رہا ہوتا ہے کہ اصل کامیابی مادہ کا حصول ہے اور اس کے لیے جس قسم کی چالاکی دھوکہ دہی کی جاسکتی ہے وہ جائز ہے اور اس مادہ پرستانہ ماحول سے جو اخلاقی تنزلی پیدا ہوتی ہے وہ ہمارے پورے معاشرے سمیت ان نونہالان پر اثر انداز ہوتی ہے۔تیسرے نمبر پر جو معاصر جامعات ہیں وہاں پر گو عصری فنون کا تعارف تو پڑھایا جاتا ہے لیکن فکری ونظریاتی تربیت وہاں ناپید ہے، اسی طرح جو دینی مدارس ہیں وہاں علوم عربیہ تو پڑھائے جاتے ہیں لیکن نظریاتی تربیت وہاں بھی نہیں ہے۔

یہی وجوہات ہیں کہ مدارس کا نوجوان شدت پسندی اور جذباتیت کا شکار ہور ہا ہے اور کالج کا نوجوان اخلاقی بے راہ روی کا شکار بنتاہے اور فکری لحاظ سے مغرب کے سامنے مایع بنتا جارہا ہے۔ اسی حالات کو مد نظر رکھ کر جمعیت علمائے اسلام نے نوجوانوں کی فکری وسیاسی تربیت کے لیے جمعیت طلبائے اسلام قائم کی ہے ، تاکہ مسٹر وملا کے فرنگی گمراہ کن تقسیم کو ختم کیا جاسکے اور مدرسہ اور اسکول کے طلبا کو ایک پیج پر جمع کیا جاسکے اور انکی باہم منافرت کو، باہمی اخوت میں بدلا جاسکے، اسلامی خطوط پر ان کی فکر ی ونظریاتی تربیت ہوسکے۔

ماضی کی تاریخ اگر ہم مطالعہ کریں تو بعض جہات میں اس تنظیم نے بہترین خدمات پیش کیے ہے اس تنظیم نے سینکڑوں نوجوانوں کی فکری وسیاسی تربیت کی ہے چنانچہ مولانا فضل الرحمن اسی شجر کا میوہ ہے اور الحمد اللہ موصوف جمعیت علما کی بہترین اندازمیں قیادت فرما رہے ہیں۔ اب چونکہ ایک طرف جذباتیت اور دوسری طرف مغرب سے مرعوبیت کا چیلنج در پیش ہے بلکہ اس دور میں تو نوجوانوں کو سیکولر ازم اور لبرل ازم سے ہوتے ہوئے فکری الحاد کا بھی سامنا ہے اس لیے اس دور میں جمعیت طلبا کی از حد اہمیت بڑھ جاتی ہیجمعیت طلبااسلام کے حوالے سے ہنگامی طور پر ان کاموں کی طرف توجہ کرنی چاہیے کہ وہ ہر تحصیل اور ہر یونٹ کی سطح پر معلمین کا انتخاب کرے اور ہفتہ وار درس اور مجلس مذاکرہ کا انتظام کرے، اور اپنا سابقہ لٹریچر ہر یونٹ کی سطح تک پہنچائے، مطالعہ اور دروس کا سلسلہ تیز کرے ماہانہ بنیاد پر تربیتی ورکشاپس رکھوائے ، نوجوانوں میں تقریر وتحریر کے مہارات پیدا کرے، ان کی اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کو سوشل میڈیا کے درست استعمال سے واقف کرائے، قصبہ قصبہ ، دہات اور شہروں میں داعیوں کی ٹیمیں تشکیل دے اور امت کے نسل نو تک اسلام کا معتدل اور متناسب پیغام پہنچائے۔

باقی عہد جدید کے تقاضوں کے مطابق نصاب میں تبدیلی اور اضافات کی ضرورت ہے جس پر مرکزی جماعت اور ذیلی جماعت کے ذمہ داران کو باہم بیٹھنا چاہیے تاکہ فوری طور پر اس پر عمل در آمد ممکن ہوسکے۔ چونکہ جمعیت علما کا میدان فقط انتخابی سیاست نہیں بلکہ ہمہ جہت انقلاب ہے، اس کے لیے مکاتب ، رسائل ، شعبہ دعا وغیرہ کا انتظام بھی ہے اس حوالے سے بھی باہمی غور فکر کی ضرورت ہے۔

جے ٹی آئی قلعہ سیف اللہ کے زیر اہتمام شہید سرفراز خان کانفرنس سے پہلے بڑے شکل میں ریلی نکلا ہے جے ٹی آئی ضلع قلعہ سیف اللہ کے زیر اہتمام بیاد ڈاکٹر سرفراز خان شہید ریلی جمیعت علما اسلام کے ضلعی دفتر سے ریلی نکلا کر شہر مختلف جگہ سے گزر نے کے بعد جلسہ گاہ پہنچ کر ریلی قیادت ضلعی صدر مولوی آدم خان خیرخوا کررہے تھے ریلی میں جمیعت علما اسلام ضلع قلعہ سیف اللہ کے جنرل سکریٹری مولوی محمد عظیم تحصیل قلعہ سیف اللہ کے امیر مولوی محمد نعیم لوبند امیر مولوی وکیل احمد تحصیل مسلم باغ کے امیر مولوی نورجہا ن حاجی محمد خان کبزی جمیعت طلبا اسلام سابق صوبائی صدر خیبر پختونخوا خواجہ تاج محمد جے ٹی آئی صوبائی جنرل سکریٹری شاہ زاہد مشوانی سابقین صوبائی صدر ضیا الحق سنزری صفی اللہ منگل جے ٹی آئی صوبائی ترجمان نظام الدین خوستی دیگر شریکت تھے مقررین نے کہاکہ شہید ڈاکٹر سرفراز خان ایک شخص نہیں بلکہ ایک فکر کا نام ہے ایک جزبے کانام ہے ڈاکٹر سرفراز خان شہید رحمہ اللہ کے مشن کو زندہ وتابندہ رکھنا ہمارے اولین ترجیحات میں شامل ہے موصوف وہ عظیم ہستی تھا کہ اس کے نام سے باطل پر لرزہ طاری ہوجاتاتھا شہید ڈاکٹر کا تعلق بلوچستان کے انتہائی پسماندہ علاقہ ضلع موسی خیل سے تھا ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد بلوچستان کی دارالحکومت کوئٹہ کے مشہور تعلیمی ادارہ سائنس کالج سے ایف ایس سی کے بعد اعلی ڈگری کے حصول کیلئے جامعہ بلوچستان میں میڈیکل میں داخلہ لیا ڈاکٹر اپنے تعلیمی سلسلہ کوآگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ جمعیت طلبا اسلام جیسے عظیم تنظیم کے ساتھ وابستہ رہا یہ وابستگی صرف عام کارکن کی حیثیت سے نہیں تھا بلکہ ڈاکٹر سرفراز شہید رحمہ اللہ سائنس کالج یونٹ کے صدارت کے بعد ضلع کوئٹہ کا صدر بھی رہ چکا ہے اور یہ سلسلہ صرف یہاں پر نہیں رکا صوبہ بلوچستان کے صدارت جیسے عظیم ذمہداری بھی مرحوم کے سپرد ہوا اس ذمہداری میں ڈاکٹر رحمہ اللہ نے جن جن مشکلات کا سامنا کیسان مصائب وتکالیف سے نہ حوصلے پست ہوئے نہ عزم فولادی میں زرہ برابر کمی آئی بلکہ یہ زحمتیں سرفراز احمد خان رحمہ اللہ کے اندر تنظیم کے کے ساتھ وابستگی کے شعلے کیلئے ہوا کے مانند رہ کر ڈاکٹر سرفراز خان شہید رحمہ اللہ جمعیت طلبا اسلام کل پاکستان کا صدر بنا یہ شہید انقلابی رہبر کے مرکزی صدر بننے سے مخالفین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا مترادف تھا آخر کار 17اکتوبر 1988کو دشمن کے ناپاک عزائم کی بنا پر شہید رحمہ اللہ کا سینہ مخالفین کی گولیوں سے چور چور ہوا ڈاکٹر شہید رحمہ اللہ دنیا سے رخصت ہوکر ابدی زندگی کے سفر پر روانہ ہوا۔

قلعہ سیف اللہ میں شائع ہونے والی مزید خبریں