پی بی سی کے پاس کوئی مانیٹرنگ نظام ہی موجود نہیں جو ملازمین پر نظر رکھ سکے اور جنکو نکالا گیا وہ اپنا گھر کیسے چلائیں گی ، سینیٹر فیصل جاوید

پورے میکنزم کو دیکھنے کی ضرورت ہے ، جن لوگوں کو ملازمت سے نکالا گیا ہے اور جو متاثرین ہیں اٴْن کو بھی سنیں گے، قائمہ کمیٹی میں اظہار خیال کمیٹی کی آئندہ اجلاس میں فلم پالیسی، ایڈورٹائزنگ پالیسی اور موثر میڈیا پالیسی لانے کے حوالے سے کمیٹی کو تفصیلی بریفنگ دینے کی ہدایات

جمعہ 15 جنوری 2021 20:47

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 جنوری2021ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کے چیئر مین سینیٹر فیصل جاوید نے کہاہے کہ پی بی سی کے پاس کوئی مانیٹرنگ نظام ہی موجود نہیں جو ملازمین پر نظر رکھ سکے اور جنکو نکالا گیا وہ اپنا گھر کیسے چلائیں گی ۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کا اجلاس کمیٹی چیئر مین سینیٹر فیصل جاوید کی سربراہی میں پارلیمنٹ لاجز میں منعقد ہوا جسمیں ریڈیو پاکستان، پی ٹی وی سے متعلق مختلف امور کا جائزہ لیا گیا۔

کمیٹی کو ریڈیو پاکستان کے ملازمت سے فارغ کئے جانے والے ملازمین کے مسلے پر بریفنگ دی گئی۔ سیکریٹری اطلاعات شاہیرا شاہد نے کمیٹی کو بتایا کہ پی بی سی مالی مسائل کا شکار یے اور اسی وجہ سیکنٹریکٹ کے ملازمین کو فارغ کیا گیا۔

(جاری ہے)

ریڈیو حکام نے آگاہ کیا کہ مجموعی طور پر 749 ملازمین تھے۔ انھوں نے بتایا انھوں نے بتایا کہ ان ملازمین کو ضرورت کے تحت رکھا گیا تھا اور ان کے کنریکٹ میں مستقل کرنے کے حوالے سے کوئی شق شامل نہیں۔

حکام نے بتایا کہ مالی مسائل کی وجہ دے ان ملازمین کی تنخواہوں کا بجٹ بھی نہیں تھا۔ انھوں نے بتایا کہ کچھ ملازمین پہلے سے کام کرنے والے ملازمین کے رشتہ دار تھے۔چیئر مین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ پی بی سی کے پاس کوئی مانیٹرنگ نظام ہی موجود نہیں جو ملازمین پر نظر رکھ سکے اور جنکو نکالا گیا وہ اپنا گھر کیسے چلائیں گی سینیٹر رخسانہ زبیری نے کہا کہ جو حالات ہیں اس میں اس طرح کا فیصلہ ٹھیک نہیں۔

سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ پورے میکنزم کو دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں جن لوگوں کو ملازمت سے نکالا گیا ہے اور جو متاثرین ہیں اٴْن کو بھی سنیں گے۔ ریڈیو حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ سمارٹ ریڈیو کا تصور عام ہے اور پی بی سی بھی اسی طرف جا رہا ہے اور اس سلسلے میں پی سی ون پلاننگ کمیشن میں جمع کروادیا گیا ہے۔ سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ اب دنیا بہت بدل چکی ہے چھوٹے سیٹ اپ کے ساتھ ایف ایم ریڈیو اسٹیشن چل رہے ہیں اگر سمارٹ ریڈیو کی طرف جانا ہے تو اتنی بڑی بلڈنگ رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وڑن اپنا پورا پلان سامنے لے کر آئیں اور ان عمارتوں پر اپنا نقطہ نظر واضح کریں۔ سینیٹر فیصل جاوید نے اس موقع پر ریڈیو میں تعیناتیوں اور ملازمت سے فارغ کرنے کیلئے اختیار کئے گئے طریقہ کار سے متعلق کمیٹی کو تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایات دیں۔ پاکستان ٹیلی وڑن کو قومی اثاثہ قرار دیتے ہوئے کمیٹی نے ہدایات دیں کہ پی ٹی وی کا مقصد کردار سازی ہے لہذا ایسے ڈرامے بنائے جائیں جو معاشرتی اقدار کے مطابق کردار سازی میں مدد کر سکیں۔

قائمہ کمیٹی نے مختلف چینلوں پر نشر کئے جانے والے ڈراموں اور مواد پر اعتراض کیا اور کہا کہ جو ڈرامے دیکھائے جا رہے ہیں وہ کسی بھی صورت معاشرتی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتے بلکہ مزید بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں۔ سینیٹر بہرہ مند تنگی نے پاکستان ٹیلی وڑن میں زیادہ مراعات اور تنخواہوں پر کام کرنے والے ملازمین کے مسئلے پر کمیٹی کو بتایا کہ جو فہرست پی ٹی وی نے فرہم کی ہے اٴْس میں کچھ نام شامل نہیں ایسے لوگ بھی ہیں جو پندرہ پندرہ لاکھ کی تنخواہیں لے رہے ہیں سیکرٹری اطلات نے بتایا کہ پورے مسئلے کا جائزہ لیا گیا ہے اور ساڑھے تین لاکھ کا بنج مارک بورڈ نے رکھا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کچھ ملازمین نے اس کے تحت کام جاری رکھا ہوا ہے جبکہ کچھ نے استیفہٰ دے دیا ہے۔ سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ ارتغرل ڈرامے کی وجہ سے پی ٹی وی کے ناظرین میں اضافہ ہوا ہے اور پی ٹی وی کو کافی اچھا مالی فائدہ ہوا اور اسی کے مطابق ایک موثر مارکیٹنگ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ کمیٹی نے پی ٹی وی اسپورٹس چینل کو بھی بہتر بنانے پر زور دیا جبکہ سینیٹر فیصل جاوید نے ہدایات دیں کہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی سطح پر سربراہی اجلاسوں میں ریکارڈ کی گئی تقریر کی ویڈیو کا معیار بہتر نہیں ہوتا اور بہتر حکمت عملی کے ذریعے اس میں بہتری لائی جا سکتی ہے کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں فلم پالیسی، ایڈورٹائزنگ پالیسی اور موثر میڈیا پالیسی لانے کے حوالے سے کمیٹی کو تفصیلی بریفنگ دینے کی ہدایات جاری کی۔

کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز مولانا عطا الرحمن، رخسانہ زبیری اور سجاد حسین طور ی، روبینہ خالد اور بہرہ مند تنگی شریک ہوئے جبکہ سیکرٹری اطلاعات، چیئرمین پمرا، ریڈیو اور پی ٹی وی کے اعلیٰ حکام اجلاس میں شریک تھے۔

عمرکوٹ میں شائع ہونے والی مزید خبریں