Open Menu

Allah Taala Apnay Bandon Ko Khali Haath Nehin Lotata - Article No. 1072

Allah Taala Apnay Bandon Ko Khali Haath Nehin Lotata

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا - تحریر نمبر 1072

مومن سب کیلئے بھلائی مانگتا ہے

ہفتہ 14 جنوری 2017

پروفیسرڈاکٹر نثار احمد چوہدری :
دعا عبادت کی روح ہے ۔ صرف دعا ہے جو تقدیر کو بدل سکتی ہے ۔ اگر غور کیاجائے تو نماز بذات خوداللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے بعد دعا ہی دعا ہے ۔ دعاکا ذکر ہماری روز مرہ زندگی میں ہر وقت رہتا ہے ۔ ماں بچے کو دعا دیتی ہے کہ بیٹا اللہ آپ کو صحت وسلامتی عطا فرمائے ، ہربلاومصیبت سے محفوظ رکھے ۔
اس طرح بڑے اور بزرگ بچوں کودعائیں دیتے ہیں ۔ نوجوان اپنے بزرگوں سے اپنی کامیابی کیلئے دعا کی درخواست کرتے ہیں ۔ لوگ اللہ کے نیک بندوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور جسے اللہ کانیک بندہ سمجھیں اس کی خدمت میں حاضر ہو کردعا کی درخواست کرتے ہیں دین نے ہمیں ہر موقعہ کی دعائیں سکھائی ہیں گھر سے نکلنے کی دعا، مسجد میں داخل ہونے کی دعا ، کھانا شروع کرنے سے پہلے اور ختم ہونے کے بعد کی دعائیں سو،نے جاگنے کی دعائیں ، غرض یہ کہ دعا اور دعا کا ذکر ہماری روز مرہ زندگی کالازمہ ہے ۔

(جاری ہے)


دعا کے سلسلہ میں سب سے پر تجسس خیال یہ ہے کہ وہ کون ساطریقہ ہوکہ ہم جو دعا مانگیں وہ فور اُقبول ہوجائے ۔ اس مقصد کیلئے کچھ لوگ وظیفے پوچھتے ہیں کہ کون ساوظیفہ کیاجائے تودعا قبول ہو جائے گی ۔ کچھ لوگ خدا کے مقرب بندوں کوتلاش کرتے پھرتے ہیں اور اس سلسلے میں عموماََ جعلی پیروں اور عاملوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ۔ بعض لوگ مخصوص متبرک مقامات ، درباروں اورمزارات پر جاکر دعائیں کرتے ہیں۔
یہاں تک کہ حج وعمرہ کا بھی ایک بڑا مقصد خانہ کعبہ ، روضہ ء رسول اور دیگر مقامات مقدسہ پر پہنچ کردعائیں کرنا ہے۔ دعا کیسے قبول ہو، اس سلسلے میں ہمیں قرآن وحدیث سے بھی رہنمائی ملتی ہے مثلاََ ایک حدیث مبارک ہے ” رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے نہ تورات میں نہ انجیل میں کوئی ایسی سورة اتاری ہے جیسی کہ ام القرآن (یعنی سورة فاتحہ ) ہے اور اس کا ایک نام ” السبع المثانی “ بھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں مجھے فرمایا ہے کہ وہ میرے اور میرے بندے کے درمیان بحصہ مساوی بانٹ دی گئی اور اس کے ذریعے سے میرے بندے جو دعا مجھ سے کریں گے وہ ضرور قبول کی جائیگی ۔
مذکورہ بالاحدیث سے ظاہر ہے کہ رسول اللہ سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ جو بندے سورة فاتحہ کے ذریعے دعا مانگیں کے اللہ تعالیٰ ان کی دعا ضرور قبول فرمائے گا۔ میرے جیسے تو اس سے یہ سمجھیں گے کہ جو دعا سورة فاتحہ پڑھ کر مانگی جائے گی وہ ضرورقبول ہو گی مگر ہمارے ایک استاد نے اس کی تشریح یوں کی تھی کہ مذکورہ حدیث کے اس حصے کا، کہ جو دعا سورة فاتحہ کے ذریعے مانگی جائے گی ضرور قبول ہو گی کامفہوم دراصل یہ ہے جو ذریعہ دعا کا سورة فاتحہ میں بتایا گیا ہے وہ اختیار کیاجائے تو دعا ضرور قبول ہوگی بسم اللہ الرحمن الرحیم سمیت سورة فاتحہ کی سات آیات دراصل قبولیت دعا کی سات شرائط یااصول بیان کرتی ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم کی آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جو دعا مانگی جائے وہ نیک اور جائز مقاصد کے حصول کیلئے ہو۔ یہ نہیں کہ چوری کرنے یاڈاکا مارنے یاکسی کو نقصان پہنچانے کیلئے دعا مانگی جائے اور توقع کی جائیے کہ وہ قبول ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ایسے ہی مقصد کیلئے مانگی جائے جس میں اللہ تعالیٰ کی ذات بندہ کے ساتھ شریک ہوسکتی ہو۔
بعض اوقات لوگ دوسروں کی تباہی وبربادی کیلئے دعائیں مانگتے ہیں اور جب پوری نہیں ہوتیں توشکوہ کرتے ہیں۔ اسی طرح بعض جعلی عامل لوگوں کے ناجائزمقاصد کیلئے تعویذدیتے اور دعائیں کرتے ہیں ۔ ایسی دعاؤں کو شرف قبولیت حاصل نہیں ہوتا دوسری شرط یااصول الحمدللہ ربّ العالمین میں مضمر ہے اور وہ یہ کہ جو دعامانگی جائے اس میں کل عالم کا بھلا ہویاکم ازکم دوسروں کانقصان ہر گزنہ ہو۔
تیسری شرط یا اصول الرحمن الرحیم میں یہ ہے کہ دعاایسی ہو جو اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت ورحمیت کو جنبش دے۔ یعنی اس دعا کی قبولیت سے نیک اورشریف لوگوں کو فائدہ ہویاکم ازکم ان کے مقاصد حیات کے حصول میں کوئی روک پیدا نہ ہوتی ہو۔ آیت ” مالک یوم الدین“ اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ سائل دعاخود بھی دوسروں سے عفودرگزر کا معاملہ کرتا اور اپنے حقوق کی طلبی میں سختی نہ کرتا ہو۔
لہٰذا قبولیت دعا کیلئے یہ چوتھی شرط ہے ۔
آیت ‘ ایاک نعبدوایاک نستعین “ قبولیت دعا کیلئے پانچویں شرط بیان کرتی ہے کہ سائل دعا کا اللہ تعالیٰ سے ایک مضبوط تعلق ہو۔ اور اس تعلق کا ثبوت اللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی میں تسلسل اور زندگی کے تمام امور کیلئے صرف اور صرف اسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے میں ہو۔ مراد یہ ہے کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے سائل دعا ہر طرح کے مشرکانہ خیالات سے دوررہتاہو۔
آیت ” اھدنا صراط المستقیم“ میں قبولیت دعاکیلئے یہ شرط رکھی گئی ہے کہ سائل دعا کامطمع دنیاوآخرت کی کامیابی کے حصول میں آسانی طلب کرنا ہو۔ یہ نہیں کہ وہ صرف ونیاوی مقاصد کے حصول کیلئے دعا گواور آخرت کو پس پشت ڈال دے بلاشبہ صراط مستقیم ہی وہ راستہ ہے جوانسان کو دونوں جہانوں میں کامیابی کی طرف لے جاتا ہے ۔ ساتواں اورآخری اصول آخرت آیت “ صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم والضالین “ میں یہ دیا گیا ہے کہ سائل دعا کے سامنے رسول کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہ کاطرز عمل اور اسوہ حسنہ بطور نمونہ ہوناچاہیے ۔
پس اگر وہ زندگی میں کامیابی اور قبولیت دعا کیلئے ان عظیم ہستیوں کی حیات طبیہ کو مشعل راہ سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوگا تو اسے بھی وہی کامیابی مل سکتی ہے ۔ پس مذکورہ بالاسات شرائط یا اصول ملحوظ خاطر لائے بغیر قبولیت دعا کی توقع رکھنا کارعبث ثابت ہواور ان ساتوں اصولوں کاخلاصہ یہ کہ :
دعا نیک اورجائز مقاصد کے حصول کیلئے ہو۔
دعا کل عالم کے بھلے کیلئے ہو یا کم ازکم دوسروں کو نقصان پہنچانے کے ارادہ سے نہ کی جائے ۔

دعاایسی ہوجس کی قبولیت سے سب نیک اور شریف لوگوں کو فائدہ ہو۔
سائل دعا زندگی کے لین وین میں احسان کا معاملہ کرنے والا ہو۔
سائل دعا کاخدا تعالیٰ سے مضبوط تعلق ہو، جس کااظہار وہ عبادت وبندگی کے تسلسل سے کر تاہو ، نیز وہ ہرطرح کے مشرکا نہ خیالات سے پاک ہو۔
سائل دعا کامطمع دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کامیابی بھی ہو۔
سائل دعا کیلئے اسوہ رسول ﷺ اور صحابہ واولیا اللہ کی حیات طبیہ مشعل راہ ہو۔ پس اگر ان مذکورہ بالاشرائط کوملحوظ خاطر رکھ کر دعائیں کی جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ایسی دعائیں عرش الٰہی تک نہ پہنچیں اور صرف ایسی دعائیں ہی ہوتی ہیں جو تقدیر کو بدل کر رکھ دیا کرتی ہیں ۔

Browse More Islamic Articles In Urdu