Open Menu

Jabir Ibn Hayyan - Article No. 3537

Jabir Ibn Hayyan

جابر ابن حیان - تحریر نمبر 3537

کیمیاء کی اکثر و بیشتر اشیاء کی دریافت کا سہرا جابر ابن حیان کے سر ہے

جمعہ 9 اپریل 2021

محمد زکریا ورک
علم کیمیاء کی بنیاد مسلمانوں نے رکھی تھی۔انہوں نے تصعید،تقطیر،تبلور اور تذویب کے طریقے بیان کئے اور بے شمار کیمیائی تیزاب بنائے جیسے نائٹرک ایسڈ،سلفیورک ایسڈ،ہائیڈروکلورک ایسڈ،مرکری،مرکری آکسائیڈ،پوٹاشیم نائٹریٹ۔کیمیاء کی اکثر و بیشتر اشیاء کی دریافت کا سہرا جابر ابن حیان کے سر ہے۔
اس لئے جابر کو جدید علم کیمیا کا جد امجد تسلیم کیا جاتا ہے۔تمام اہالیان مشرق و مغرب متفق ہیں کہ جابر دنیا کا پہلا مستند کیمیا دان تھا۔جابر نے کیمیا میں انمٹ نقوش چھوڑے،بے شمار کیمیائی مرکبات ایجاد کئے جیسے سلفیورک ایسڈ،نائٹرک ایسڈ اور ہائیڈروکلورک ایسڈ۔جابر علم کیمیا کا مایہ ناز استاد،پہلا نامور سائنسدان اور ممتاز دانشور تھا۔

(جاری ہے)

جابر نے کیمیا میں تجربات کو خاص اہمیت دی تھی۔جابر کو کیمیا میں وہی اعلیٰ مقام حاصل تھا جو ارسطو کو منطق میں تھا۔ابن خلدون کے بقول جابر کو علم کیمیا کے مرتب کرنے میں امام کا درجہ حاصل تھا۔
اوراق زیست:
آپ کی پیدائش طوس(ایران) کے خاندان ازد میں ہوئی تھی۔والد حیان الازدی پیشہ ور عطار(دوا ساز)تھے جن کا تعلق جنوب عرب کے قبیلہ ازد سے تھا جو یمن میں کوفہ ہجرت کر آیا تھا۔
حیان نے عباسی خاندان کی اموی خاندان کے خلاف بغاوت میں مدد کی تھی جنہوں نے اس کو خراسان میں مدد حاصل کرنے کیلئے بھیجا تھا۔حیان کسی طرح اموی خاندان کے ہاتھ لگ گئے اور انہوں نے ان کو قتل کروا دیا۔ان کی والدہ ننھے بچے کو ساتھ لے کر یمن ہجرت کر گئیں اور اپنے قبیلے کے لوگوں میں رہنے لگیں جہاں جابر نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔جابر نے صغر سنی میں قرآن،حدیث اور دیگر علوم کی تعلیم حاصل کی۔
مروجہ تعلیم مکمل کرکے جب وہ فارغ التحصیل ہوئے تو ان کے اساتذہ ان کی علمی لگن اور ذہانت سے بہت خوش تھے۔جابر کو علم کیمیا میں شغف ان کے والد کی کیمیا میں دلچسپی کی وجہ سے ہوا تھا۔عالم شباب میں ایک دن سر میں سونا بنانے کا سودا پیدا ہو گیا۔سامان اکٹھا کیا اور کیمیا گری کی دھن میں مصروف ہو گئے۔دھاتوں کو جڑی بوٹیوں کے ساتھ پھونکنے میں لگ گئے،ہر روز نئے نئے تجربات کئے جو ایجادات کی نئی نئی راہیں کھول رہے تھے۔
متجس ذہن نے نئی نئی اشیاء ایجاد کر لیں،اور ایک دن کیمیا کے موجد اعلیٰ کا اعزاز مل گیا۔جب بنو عباس نے بغداد میں زمام اقتدار سنبھال لیا تو جابر کوفہ سے بغداد ہجرت کر گئے جہاں ان کی شہرت پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔خلیفہ ہارون الرشید کے وزیراعظم جعفر برمکی کی سرپرستی میں طبابت شروع کر دی۔دربار سے وابستگی کے بعد جابر نے بڑی شہرت حاصل کی۔برمکی خاندان کے ساتھ جابر کے اچھے تعلقات تھے۔
جب یہ خاندان 803ء میں خلیفہ ہارون الرشید کے زیر عتاب آیا تو جابر کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔کوفہ میں نظر بندی کے دوران 815ء میں اس نے اپنی جاں جان آفریں کے سپرد کی،بوقت رحلت اس کے تکیے کے نیچے کتاب الرحمہ کا مسودہ تھا۔
قاضی صاعد اندلسی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب طبقات الامم (1068ء) میں علوم عرب کا ذکر کرتے ہوئے جابر بن حیان کے بیان میں لکھا ہے:صوفی اور علوم طبیعات کا جید عالم،فن کیمیا میں مہارت تامہ رکھتا تھا۔
اس فن میں اس کی متعدد تصانیف مشہور ہیں۔علاوہ برس اکثر اوصناف فلسفہ میں بھی دخل رکھتا تھا اور علم باطن کا پیروکار تھا جو متصوفین اسلام مثل حرث بن اسد،محاسبی اور سہل بن عبداللہ تستری وغیرہ کا مذہب ہے۔مجھے محمد بن سعید سر قسطی معروف بہ ابن المشاط اصطرلابی نے اطلاع دی ہے کہ اس نے مصر میں جابر بن حیان کی ایک کتاب علم اصطرلاب پر دیکھی ہے جس میں اصطرلاب سے متعلق ایک ہزار بے نظیر مسائل ہیں۔

طبقات الامم کا اردو میں ترجمہ قاضی احمد میاں اختر نے 1928ء میں کیا تھا۔فن کیمیا کے ضمن میں انہوں نے حاشیہ میں لکھا ہے:اس کی اسرار الکیمیا لیڈن سے 1685ء میں چھپی تھی،اس کے پانچ سو رسائل جو ایک ہزار صفحات ہیں اسٹراسبرگ میں 1530ء اور 1625ء کے مابین چھپ چکے ہیں۔فن کیمیا میں اس کی ایک کتاب 1572ء میں بازل میں چھپ گئی ہے۔جابر کی بعض تصانیف کو دیکھ کر بعض یورپین مصنفین کی رائے ہے کہ اس کی کتابیں فی الحقیقت فن کیمیا میں نہیں بلکہ وہ سب کی سب تصوف میں ہیں جن میں جابر نے کیمیاوی اصطلاحات کے پردہ میں اپنے صوفیانہ خیالات کا اظہار کیا ہے۔
(صفحہ 121)
اساتذہ:
تذکرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جابر نے امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ (700-765) سے روس لیا تھا۔کچھ مورخین اس بات کی تائید کرتے اور کچھ تردید کرتے ہیں۔تردید اس لئے کہ شیعہ کتب میں امام جعفر الصادق رضی اللہ عنہ کے کسی ایسے شاگرد کا ذکر نہیں ملتا جس کا نام جابر تھا۔لیکن بعض جگہوں پر آپ کی کنیت ابو موسیٰ بھی درج ہے جیسا کہ زکریا الرازی نے آپ کا ذکر ابو موسیٰ کے نام سے کیا تھا۔
فہرست ابن ندیم میں بھی آپ کا نام ابو موسیٰ لکھا ہوا ہے۔لاطینی میں جابر کی ترجمہ شدہ کتابوں میں مصنف کا نام Geber لکھا جاتا ہے۔یہی نام یورپ میں زبان زد عام تھا۔
سائنسی زندگی کا آغاز
کاروان سائنس کے سالار جابر کی سائنسی زندگی کا آغاز اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے کوفہ میں رہائش اختیار کی تھی۔یہاں آپ نے اپنی تجربہ گاہ قائم کی اور کیمیا کی ان تحقیقات کی تکمیل کی جن کی وجہ سے ان کو دنیا کا پہلا موٴقر و مستند کیمیا دان ہونے کا اعزاز تفویض کیا گیا۔
جابر کے دور زندگی میں کیمیا کی ساری کائنات قیمتی دھاتوں پارہ،تانبہ،چاندی کو سونے میں ڈھالنے کی کوشش کے گرد ہی گھومتی تھی لیکن جابر کی تحقیقات کا دائرہ اس بے سود کام سے بہت ارفع تھا۔آپ تجرباتی کیمیا کے بانی مبانی تھے۔اس ضمن وہ خود کہتے ہیں:”کیمیا میں سب سے ضروری شے تجربہ ہے۔جو شخص اپنے علم کی بنیاد تجربے پر نہیں رکھتا وہ ہمیشہ غلطی کھاتا ہے۔
پس اگر تم کیمیا کا صحیح علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو تجربوں پر انحصار کرو اور صرف اسی علم کو صحیح جانو جو تجربے سے ثابت ہو جائے۔ایک کیمیا دان کی عظمت اس بات میں نہیں ہے کہ اس نے کیا کچھ پڑھا ہے بلکہ اس بات میں ہے کہ اس نے کیا کچھ تجربے سے سیکھا ہے۔“
تاریخ انسانیت میں جابر ابن حیان کا نام کیمسٹری میں زریں کارناموں کی وجہ سے جلی حروف میں لکھا جاتا ہے۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا اس نے کیمیا میں باضابطہ تجربات پر زور دیا۔اس نے کیمیا کو جادو ٹونے سے آزادی دلا کر باقاعدہ سائنس کا رتبہ عطا کیا۔لیبارٹری میں استعمال ہونے والے 20 سے زیادہ سائنسی آلات ایجاد کئے۔اس کے علاوہ کئی کیمیاوی مادے جیسے ہائیڈرو کلورک ایسڈ،نٹرک ایسڈ،عمل تصعید،قلماؤ کے طریقے ایجاد کئے جو آج کل کیمسٹری اور کیمیکل انجینئرنگ میں اساسی اہمیت کے حامل ہیں۔
ان کے علمی کاموں اور کارناموں کی وجہ سے نویں صدی سے تیرھویں صدی کے دوران آنے والے مسلمان کیمیا دانوں جیسے الکندی،الرازی،ابو القاسم العراقی کیلئے تحقیقات کا راستہ آسان ہو گیا۔آپ کے اشہب قلم سے جو نادر الوجود کتابیں نمودار ہوئیں،ان کا اثر یورپ کے کیمیا دانوں پر دیرپا تھا۔ شاید اسی لئے وہ’فلاسفرز سٹون‘پارس پتھر کی تلاش میں غلطاں و پیچاں رہے تھے۔

جابر کو کیمیا میں تجربات کی اہمیت کا پورا پورا خیال تھا۔وہ کہتا ہے:”کیمیا میں سب پہلی اہم چیز یہ ہے کہ انسانی عملی کام کرے اور تجربات کرے،کیونکہ جو شخص عملی کام نہیں کرتا اور نہ ہی تجربات کرتا ہے،وہ کبھی بھی اس مضمون میں ہنر مندی حاصل نہیں کر سکے گا“۔کتاب الحکمة الفلاسفیہ سے درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
مرکری اور سلفر باہم ملاپ سے ایک پروڈکٹ بن جاتے مگر یہ فرض کر لینا غلط ہے کہ یہ عنصر بالکل نیا تھا اور یہ کہ مرکری اور سلفر مکمل طور پر تبدیل ہو گئے۔امر واقعہ یہ ہے کہ دونوں نے اپنی طبعی خواص قائم رکھے۔دونوں عناصر میں کیمیائی اتحاد ان کی خواص میں تبدیلی کے بغیر مستقبل ملاپ سے وجود میں آتا۔

Browse More Islamic Articles In Urdu