Open Menu

Fareeza E Hajj - Article No. 980

Fareeza E Hajj

فریضہ حج - تحریر نمبر 980

کن باتوں کاخیال رکھنا ضروری ہے حج کے متعلق فرمایا گیا تھا کہ اسے کرکے دیکھو اس میں تمہارے لئے کتنا منافع ہے۔میری زبان میں اتنی قدرت نہیں کہ اس کے سارے منافع گنوا سکوں ،تاہم اس کے فائدوں کا یہ ذرا سا۔۔۔

پیر 21 ستمبر 2015

مولانا ابوالاعلیٰ مودودی:
حج کے متعلق فرمایا گیا تھا کہ اسے کرکے دیکھو اس میں تمہارے لئے کتنا منافع ہے ۔میری زبان میں اتنی قدرت نہیں کہ اس کے سارے منافع گنوا سکوں ،تاہم اس کے فائدوں کا یہ ذرا سا خاکہ جو میں نے آپ کے سامنے پیش کیا ہے اسی سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہے۔مگر یہ سب کچھ سننے کے بعد ذرامیری کچھ باتیں بھی سن لو۔

تم نسلی مسلمانوں کا حال اُس بچے کا ساہے جو ہیرے کی کان میں پیدا ہواہے۔ایسا بچہ جب ہر طرف ہیرے ہی ہیرے دیکھتا ہے اور پتھروں کی طرح ہیروں سے کھیلتا ہے تو ہیرے اس کی نگاہ میں ایسے ہی بے قدر ہوجاتے ہیں جیسے پتھر۔یہی حالت تمہاری بھی ہے کہ دنیا جن نعمتوں سے محروم ہے جن سے محروم ہو کر سخت مصیبتیں اور تکلیفیں اٹھارہی ہے اور جن کی تلاش میں حیران وسرگرداں ہے ،وہ نعمتیں تم کو مفت میں بغیر کسی تلاش وجستجو کے صرف اس وجہ سے مل گئیں کہ خوش قسمتی سے تم مسلمان گھروں میں پیداہوئے ہو۔

(جاری ہے)

وہ کلمہ ،توحید جو انسان کی زندگی کے تمام پیچیدہ مسئلوں کوسلجھا کر ایک صاف سیدھاراستہ بنادیتا ہے بچپن سے تمہارے کانوں میں پڑا۔نماز اور روزے کے وہ کیمیا سے زیادہ قیمتی نسخے جو آدمی کو جانور سے انسان بناتے ہیں اور انسانوں کو خداترس اور ایک دوسرے کابھائی ،ہمددر اور دوست بنانے کیلئے جن سے بہتر نسخے آج تک دریافت نہیں ہو سکے ہیں تم آنکھ کھولتے ہی خود بخود باپ دادا کی میراث میں مل گئے۔

زکوة کی وہ بے نظیرترکیب جس سے محض دلوں کی ناپاکی دور نہیں ہوتی بلکہ دُنیا کامالیاتی نظام بھی درست ہوجاتا ہے جس سے محروم ہوکر تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ دنیا کے لوگ ایک دوسرے کا منہ نوچنے لگے ہیں تمہیں وہ اس طرح مل گئی جیسے کسی حکیم حاذق کے بچے کو بغیر محنت کے وہ نسخے مل جاتے ہیں جنہیں دوسرے لوگ ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔اسی طرح حج کاوہ عظیم الشان طریقہ بھی جس کاآج دنیا بھر میں کہیں جواب نہیں ہے جس سے زیادہ طاقت ور ذریعہ کسی تحریک کو چاردانگ عالم میں پھیلانے اور ابدالآبادتک زندہ رکھنے کیلئے آج تک دریافت نہیں ہوسکاہے جس کو سوا آج دنیا میں کوئی عالم گیر طاقت ایسی موجود نہیں ہے کہ آج کی ساری اولاد کو زمین کے گوشے گوشے سے کھنچ کر خدائے واحد کے نام پر ایک مرکز پر جمع کردے،اور بے شمار نسلوں اور قوموں کو ایک خداپرست ، نیک نیت، خیرخواہ برادری میں پیوست کرکے رکھ دے، ہاں ایسا بے نظیرطریقہ بھی تمہیں بغیر کسی جستجو کے بنایا اور صدہابرس سے چلتا ہوا مل گیا مگر تم نے ان نعمتوں کی کوئی قدرنہ کی۔
کیونکہ آنکھ کھولتے ہی یہ تم کو اپنے گھر میں ہاتھ آگئیں۔ اب تم ان سے بالکل اسی طرح کھیل رہے ہو جس طرح ہیرے کی کان میں پیدا ہونے والا نادان بچہ ہیروں سے کھیلتا ہے اور انہیں کنکر پتھر سمجھنے لگتا ہے۔
اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے جس بری طرح تم اس زبردست دولت اور طاقت کو ضائع کررہے ہو اس کا نظارہ دیکھ کر دل جل اٹھتا ہے کوئی کہاں سے اتنی قوت برداشت لائے کہ پتھر پھوڑوں کے ہاتھوں جواہرات کو برباد ہوتے دیکھ کر ضبط کرسکے؟
خرعیسیٰ اگر بمکہ رود
چُوں بازبآیدہنوز خردباشد
یعنی ’ گدھا خواہ عیسیٰ علیہ السلام جیسے پیغمبر ہی کا کیوں نہ ہو مکہ کی زیارت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔
اگر وہ وہاں ہوآئے تب بھی جیسا گدھا پہلے تھاویسا ہی رہے گا۔
نماز روزہ حج یہ سب چیزیں سمجھ بوجھ رکھنے والے انسانوں کی تربیت کیلئے ہیں،جانوروں کو سدھانے کیلئے نہیں ہیں۔جو لوگ نہ ان کے معنیومطلب کو سمجھیں، نہ ان کے مدعا سے کچھ غرض رکھیں نہ اس فائدے کو حاصل کرنے کاارادہ ہی کریں جو ان عبادتوں میں بھراہوا ہے بلکہ جن کے دماغ میں ان عبادتوں کے مقصد مطلب کا سرے سے کوئی تصور ہی نہ ہو،وہ اگر ان افعال کی نقل اس طرح اتاردیا کریں کہ جیسا اگلوں کو کرتے دیکھا ویسا ہی خود بھی کردیا ،تو اس سے آخر کس نتیجے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
بدقسمتی سے عموماََ آج کل کے مسلمان اسی طریقے سے ان افعال کو ادا کررہے ہیں۔ہر عبادت کی ظاہری شکل جیسی مقرر کر دی گئی ہے ویسی ہی بناکر رکھ دیتے ہیں، مگر وہ شکل روح سے بالکل خالی ہوتی ہے۔
تم دیکھتے ہو کہ ہر سال ہزار بازائرین مرکز اسلام کی طرف جاتے ہیں اور حج سے مشرف ہوکر پلٹتے ہیں۔مگر نہ جاتے وقت ہی ان پر وہ اصلی کیفیت طاری ہوتی ہے جو ایک مسافر حرم میں ہونی چاہئے۔
نہ وہاں سے واپس آکر ہی ان میں کوئی اثر حج کاپایا جاتا ہے اور نہ اس سفر کے دوران میں وہ ان آبادیوں کے مسلمانوں اور غیر مسلموں پر اپنے اخلاق کا کوئی اچھا نقش بٹھاتے ہیں جن پر سے اُن کاگزرہوتا ہے بلکہ اس کے برعکس اُن میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو اپنی گندگی، بے تمیزی اور اخلاقی پستی کی نمائش کرکے اسلام کی عزت کو بٹہ لگاتے ہیں۔
ان کی زندگی کو دیکھ کر بجائے اس کے دین کی بزرگی کاسکہ غیر پر جمے خوداپنوں کی نگاہوں میں بھی وہ بے وقعت ہوجاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج خود ہماری اپنی قوم کے بہت سے نوجوان ہم سے پوچھتے ہیں کہ ذرا اس حج کا فائدہ تو ہمیں سمجھاؤ۔
حالانکہ یہ حج وہ چیز تھی کہ اگر اسے اس کی اصلی شان کے ساتھ ادا کیا جاتا تو کافر تک اس کے فائدوں کو اعلانیہ دیکھ کر ایمان لے آتے ۔
کسی تحریک کے ہزاروں لاکھوں ممبر ہر سال دنیا کے ہر حصے سے کھینچ کر ایک جگہ جمع ہوں اور پھر اپنے اپنے ملکوں کو واپس جائیں، ملک ملک اور شہر شہر سے گزرتے ہوئے اپنی پاکیزہ زندگی پاکیزہ خیالات اور پاکیزہ اخلاق کا اظہار کرتے جائیں،جہاں جہاں ٹھہریں اور جہاں سے گزریں ، وہاں اپنی ، تحریک کے اصولوں کا نہ صرف زبان سے پرچار کریں بلکہ اپنی عملی زندگی سے ان کا پورا پورا مظاہرہ بھی کردیں، اور یہ سلسلہ دس یا بیس بر س نہیں بلکہ صدیوں تک سالہا سال چلتا رہے۔

بھلا غور تو کیجئے کہ یہ بھی کوئی ایسی چیز تھی کہ اس کے فائدے پوچھنے کی کسی کو ضرورت پیش آتی؟ خدا کی قسم اگر یہ کام صحیح طریقے پر ہوتا تو اندھے اس کے فائدے دیکھتے اور بہرے اس کے فائدے سن لیتے۔ہر سال کا حج کروڑوں مسلمانوں کو نیک بناتا۔ہزاروں غیر مسلموں کو اسلام کے دائرے میں کھینچ لاتا اور لاکھوں غیر مسلموں کے دلوں پر اسلام کی بزرگی کا سکہ بٹھادیتا ۔مگربُرا ہوجہالت کا جاہلوں کے ہاتھ پڑکر کتنی پیش قیمت چیز کسی بُری طرح ضائع ہورہی ہے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu