Open Menu

Hazrat Ali RA Ki Danish - Article No. 1098

Hazrat Ali RA Ki Danish

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دانش - تحریر نمبر 1098

حضرت علی رضی اللہ عنہ بہادری میں تو بے مثال تھے ہی ، عالم بھی اتنے ہی زبردست تھے کہ بڑے سے بڑا مسئلہ آسانی سے حل کردیتے تھے ۔ ایک دفعہ دو آدمی آپ کی خدمت میں آئے اور اپنا مقدمہ پیش کیا ان کا جھگڑا بڑا عجیب تھا۔ وہ دونوں ایک جگہ بیٹھے کھانا کھارہے تھے۔

بدھ 15 فروری 2017

روبینہ اصغر :
حضرت علی رضی اللہ عنہ بہادری میں تو بے مثال تھے ہی ، عالم بھی اتنے ہی زبردست تھے کہ بڑے سے بڑا مسئلہ آسانی سے حل کردیتے تھے ۔ ایک دفعہ دو آدمی آپ کی خدمت میں آئے اور اپنا مقدمہ پیش کیا ان کا جھگڑا بڑا عجیب تھا۔
وہ دونوں ایک جگہ بیٹھے کھانا کھارہے تھے ۔ ایک کے پاس پانچ روٹیاں تھیں اور دوسرے کے پاس تین ۔
اتنے میں ایک مسافر آیا۔ ان دونوں نے اسے بھی اپنے ساتھ کھانے میں شریک کرلیا۔ کھانا کھانے کے بعد مسافر نے انھیں آٹھ درہم دیے اور کہا کہ آپس میں بانٹ لینا ۔
مسافر تو یہ کہہ کرچلا گیا مگران دونوں میں آٹھ درہموں کی تقسیم پر جھگڑا ہوگیا ۔ پانچ روٹیوں والاخود پانچ درہم لیناچاہتا تھا اور دوسرے شخص کو تین درہم دنیا چاہتا تھا ۔

(جاری ہے)

اس کا کہنا تھا کہ میری روٹیاں چونکہ پانچ تھیں اور تمھاری تین اس لیے پانچ درہم میرے اور تین تمھارے ۔


مگر دوسرا شخص کہتا تھا کہ مسافر نے ہم دونوں کا کھانا کھایا ہے اس لیے دونوں کو چار چار درہم ملنے چاہییں ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب سارا قصہ سنا تو آپ نے تین روٹیوں والے سے کہا ” بھلے آدمی ، تمھارا فائدہ اسی میں ہے کہ تم تین ہی درہم قبول کرلو۔ حساب کیاجائے تو تمھارے حصے میں صرف ایک درہم آتا ہے ۔
یہ بات سن کر وہ شخص بہت حیران ہوااور کہنے لگا ۔
ایک درہم ؟ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔ مجھے سمجھادیجیے ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا ۔ لوسنو۔ تمھارے پاس تین روٹیاں تھیں اور تمھارے ساتھی کے پاس پانچ کل آٹھ روٹیاں تھیں اور کھانے والے تین ۔ ہرروٹی کے تین ٹکڑے کریں توآٹھ روٹیوں کے چوبیس ٹکڑوں کو تین کھانے والوں پر تقسیم کرو تو ہر ایک کے حصے میں آٹھ آٹھ ٹکڑے آتے ہیں ۔ پس آٹھ ٹکڑے تم نے کھائے ، آٹھ تمھارے ساتھی نے اور آٹھ تمھارے مہمان نے ۔
یہ حساب ٹھیک ہے نا ؟
اس شخص نے جواب دیا ۔ ہاں جناب بالکل ٹھیک ہے ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے ۔ اب سنو کہ تمھاری روٹیاں تین تھیں ۔ ان تین روٹیوں کے نوٹکڑے ہوئے ۔ تم نے اپنے نوٹکڑوں میں سے آٹھ خود کھائے اور تمھارا صرف ایک ٹکڑا بچاجو مہمان نے کھایا ۔ تمھارے ساتھی کی پانچ روٹیاں تھیں ۔ ان پانچ روٹیوں کے پندرہ ٹکڑے ہوئے ۔ ان میں سے آٹھ اس نے خود کھائے اور جوسات ٹکڑے بچے وہ مہمان نے کھائے ۔ اس حساب سے تمھیں صرف ایک درہم ملنا چاہیئے اور تمھارے ساتھی کے حصے میں سات درہم آتے ہیں ۔
یہ سن کر وہ شخص حیران رہ گیا اور اس نے ایک درہم ہی قبول کرلیا ۔

Browse More Islamic Articles In Urdu