Open Menu

Khasais Hazrat Ali Sher Khuda RA - Article No. 954

Khasais Hazrat Ali Sher Khuda RA

خصائص حضرت علی شیر خدا - تحریر نمبر 954

حضرت علی رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور ان صحابہ میں سے، جنہیں زندگی ہی میں حضور اکرمﷺ نے جنت کی خوشخبری سنا دی، نسبی لحاظ سے حضورﷺ کے سب سے قریبی ہیں۔ آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد ہیں جبکہ والد حضورﷺ کے مہربان اور شفیق چچا ابوطالب ہیں

جمعہ 10 جولائی 2015

ڈاکٹر محمد نوید ازہر
حضرت علی رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور ان صحابہ میں سے، جنہیں زندگی ہی میں حضور اکرمﷺ نے جنت کی خوشخبری سنا دی، نسبی لحاظ سے حضورﷺ کے سب سے قریبی ہیں۔ آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد ہیں جبکہ والد حضورﷺ کے مہربان اور شفیق چچا ابوطالب ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ بلوغت سے پہلے ہی اسلام قبول کر چکے تھے۔
امام احمد نے روایت کیا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد سب سے پہلے رسول اللہﷺ پر ایمان لانے والے علی ہیں۔ (ترمذی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں حضور اکرمﷺ کے ساتھ ان کے کاشانہ اقدس میں رہے ۔ چند سال جب کثرت عیال کی وجہ سے، ابو طالب کو تنگدستی لاحق ہو گئی تو حضور اکرمﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کفالت فرمائی۔

(جاری ہے)

پھر وقت ہجرت حضورﷺ نے آپ کو اپنی امانتیں واپس کرنے کے لیے خلیفہ بنایا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی جان پر کھیل کر حضورﷺ کا لباس پہنا اور آپﷺ کے بستر پر سو گئے۔ اگلے روز امانتیں واپس کرکے مدینہ طیبہ ہجرت کی اور تادم وفات حضور اکرم ﷺ کے ساتھ رہے۔ آپ حضورﷺکے ساتھ تمام غزوات میں بھی شریک ہوئے۔
غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضورﷺ سے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ! میں بھی آپ کے ہمراہ جاؤں گا۔
حضورﷺ نے انکار فرما دیا۔ آپ رونے لگے تو حضورﷺ نے فرمایا ”کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ مجھ سے تمہاری وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون کو حضرت موسی ٰ سے تھی، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔ میں نے ارادہ کیا ہے کہ تم میری عدم موجودگی میں میری نیابت کے فرائض سرانجام دو“۔ (بخاری و مسلم)
جب رسول اللہﷺ حج الوداع سے واپس ہوئے تو مکہ اور مدینہ کے درمیان غدیر خم کے مقام پر 18۔
ذی الحج کو آپ نے لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپ نے اس میں فرمایا: ”اے اللہ! علی سے محبت رکھنے والے سے تو محبت رکھ۔ ان سے دشمنی رکھنے والے سے تو دشمنی فرما۔ ان کی مدد کرنے والے کی تو مدد فرما۔انہیں بے یارو مدد گار چھوڑنے والے کو تو بے یارو مددگار کر دے۔ (ابن کثیر:7)
آپ کے لقب ”ابوتراب“ کا پس منظر صحیحین میں منقول ہے۔ سہل بن سعد مروی ہیں کہ حضرت علی مسجد میں آکر لیٹ گئے۔
حضور اکرمﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: علی رضی اللہ عنہ کہاں ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: مسجد میں ہیں۔ حضورﷺ مسجد میں تشریف لے گئے اور دیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ فرشِ خاک پر آرام فرما ہیں۔ چادر ان کی پشت سے ہٹی ہوئی ہے اور بدن پرمٹی لگی ہوئی ہے۔ آپﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بدن سے مٹی جھاڑنے لگے اور دو مرتبہ فرمایا: ”اے ابوتراب (مٹی والے)! اٹھ بیٹھ“۔
(بخاری، دوم)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل و خصائص میں سے ہے کہ بدر کے روز حضور اکرم ﷺ نے اپنی تلوار طلب فرمائی اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بخش دی۔ (ابن عساکر)
حضرت سہل بن سعدرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے خیبر کے روز فرمایا: کل میں یہ جھنڈا ضرور اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائیں گے۔
صحابہ کرام تمام رات عالم اضطراب میں رہے کہ دیکھیے وہ خوش نصیب کون ہے صبح ہوئی تو ہر شخص یہ تمنا لیے ہوئے بارگاہ رسالتﷺ میں حاضر خدمت ہوا کہ فتح کا علم اسے عطا کر دیا جائے۔ آپﷺ نے فرمایا :علی رضی اللہ عنہ ابن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! انہیں آشوب چشم کا عارضہ لاحق ہے۔ (اس بناء پر وہ آرام فرما رہے ہیں) حضورﷺ نے فرمایا: انہیں بلا کر لاؤ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضورﷺ کی خدمت میں لایا گیا تو حضورﷺ نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں پر لگایا اور ان کے لیے دعا فرمائی۔ چنانچہ وہ اس طرح شفایاب ہو گئے جیسے انہیں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں ۔ پھر آپ نے انہیں جھنڈا عطا فرما دیا۔ (بخاری، دوم) سلمہ بن اکوع کی روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا ”صبح میں یہ جھنڈا ضرور اس شخص کو دوں گا جس کو اللہ اور اس کا رسول دوست رکھتے ہیں“۔
(ایضاً)
عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: علی رضی اللہ عنہ مجھ سے ہیں اور میں علی رضی اللہ عنہ سے ہوں۔ (ترمذی) اْم سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ فرمایا کرتے: ”کسی منافق کو علی رضی اللہ عنہ سے محبت نہیں ہو سکتی اور کوئی مومن آپ سے بغض نہیں رکھتا“۔ (ترمذی) عبداللہ بن ابن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرمﷺ نے صحابہ کرام کے درمیان مواخات قائم فرمائی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اشکبار آنکھوں کے ساتھ حاضر خدمت ہوئے اور عرض کی۔
یا رسول اللہﷺ! آپ نے صحابہ کرام کے درمیان بھائی چارہ قائم فرما دیا لیکن مجھے کسی کا بھائی نہ بنایا۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو“۔ (ترمذی)
عبدالرحمن ابن ابی لیلیٰ نے روایت کیا ہے کہ میرے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ چل رہے تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ گرمیوں کا لباس سردیوں میں اور سردیوں کا لباس گرمیوں میں استعمال کرتے تھے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے میرے والد سے فرمایا: کاش تم مجھ سے سوال کرتے ۔ چنانچہ میرے والد نے اس بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ”رسول اللہﷺ نے مجھے طلب فرمایا، میں نے عرض کیا: میں آشوب چشم کی بیماری میں مبتلا ہوں۔ آپ نے میری آنکھوں پر لعاب دہن لگایا اور فرمایا: اے اللہ! ان سے گرمی اور سردی دور فرما۔ اس روز کے بعد آج تک مجھے گرمی اور سردی کا احساس نہیں ہوا۔
(ابن کثیر، 7)
امام نسائی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مناقب میں ایک مستقل کتاب ”کتاب الخصائض“ تالیف کی ہے جو مستند احادیث و آثار کا مجموعہ ہے۔ اس میں سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
رسول اللہﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہ کو چادر میں ڈھانپ کر فرمایا: ”بے شک اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے اہل بیت، تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور تمہیں خوب خوب پاکیزہ فرما دے“۔ (کتاب الخصائص)

Browse More Islamic Articles In Urdu