Open Menu

Sabar O Shukar Ka Haqeeqi Mafhoom - Article No. 933

Sabar O Shukar Ka Haqeeqi Mafhoom

صبر اور شکر کا حقیقی مفہوم - تحریر نمبر 933

صبر اور شکر تصوف کے محکمے میں مردان حق کے2اہم مقام اور مراتب ہیں۔صبر کے لغوی معنی رک جانا ہمت وحوصلہ کرنا،برداشت ،بردباری اور تحمل کے معنوں میں آتا ہے

جمعہ 5 جون 2015

صبر اور شکر تصوف کے محکمے میں مردان حق کے2اہم مقام اور مراتب ہیں۔صبر کے لغوی معنی رک جانا ہمت وحوصلہ کرنا،برداشت ،بردباری اور تحمل کے معنوں میں آتا ہے اور شکر کے معنی کسی کے احسان کرم اور مہربانی کو تسلیم کرنا ہے۔ذات حق کا فرمان ہے کہ میں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوں اور شکر کرنے والوں کو پسند کرتا ہوں۔معلوم ہو اصبر اور شکر بندوں کے وہ مراتب ہیں جوذات حق کو بے حد پسند ہیں۔

انسان پر صبر کے دوطرح سے مقام آتے ہیں ۔ایک سختی اور تکلیفیں آزمائش کے لیے اور دوسری گناہوں کی پکڑ کے لیے آزمائش خاصوں اور پیاروں کی ہوتی ہے اور گناہوں پر سختی گناہ گاروں کے لیے اور معتوبوں کے لیے ہوتی ہے۔معصوموں اور بے گناہ بندوں کا تحمل وبردباری سے دکھوں کا برداشت کرنا ذات حق کو بہت پسند ہے کیونکہ معصومون کو بغیر گناہ کے دکھ دئیے جارہے ہیں اور وہ خندہ پیشانی سے بغیر شکوہ شکایت کیے برداشت کررہے ہیں۔

(جاری ہے)

ذات حق کو ان کی ادابہت ہی زیادہ پسند ہے۔اس لیے ذات حق نے فرمایا میں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوں ۔یعنی معصوموں کے صبر کو ذات حق نے پسند فرمایا۔یہ عظیم مرتبے کے لوگ ہیں جن پر فرشتوں کو بھی رشک آتا ہے۔ان معصوموں کی ہراداواقعی قابل رشک ہے اور دل کو مولینے والی ہے۔گناہوں کی وجہ سے سختیاں برداشت کرنے والوں کی کوئی خوبی نہیں ہے۔ کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ ہمارے پاپوں کی پکڑ کی وجہ سے ہم پر سختیاں ہورہی ہیں۔
ان کی برداشت صبر کے ضمن میں نہیں آتی ۔صبر فقط معصوموں اور پاکوں کا ہی پسند کیا گیا ہے اور ان ہی کے ساتھ ذات حق ہوتی ہے۔
صبر کسی بزدلی اور بے چارگی کانام نہیں ہے۔اگر کسی کو کوئی دکھ دے اور وہ اس کو جواب دینے کی پوری طاقت بھی رکھتا ہو لیکن پھر سنت رسول کو سامنے رکھتے ہوئے تحمل سے برداشت کرجائے یہ بہت بڑی بہادری اور مردانگی ہے۔ہاں اگر کوئی اپنی کمزوری اور بے بسی کی بنا پر برداشت کرتا ہے تو وہ صبر کے اعلیٰ درجے پر نہیں آتا۔
کیونکہ ظالم کا ظلم سہنا اور وہ بھی بت چارگی کی وجہ سے صبر کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔
صبرکی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ صبر نعمت لے کر دیکھا جاتا ہے اور شکر نعمت دے کر آزمایا جاتا ہے۔اس مقام پر صابر اور مشکوردونوں قابل رشک ہیں۔ نعمتیں لے لی جائیں اور پھر منہ پر شکوہ نہ ہوا ور در محبوب پر پھر بھی جھکارہے۔یہ کمال صبر کی بات ہے اور یہ صرف طالب المولیٰ والے ہی ہوں گے جو اس منزل سے گزریں گے۔
یہ صرف اور صرف مردان کامل ہی کاکام ہے۔نعمت دے کر شکر آزمانا یہ بھی انتہائی سخت آزمائش اور امتحان ہے۔اس میں بھی صرف مردان کامل ہی سرخرو ہو کر نکلتے ہیں۔طیش میں خوف خدا کو اپنے اوپر غالب کر لینا اور عیش میں یاد خدا سے غافل نہ ہونا،یہ فقط صابروں اور ذات حق کے شکر گزاربندوں کا ہی کام ہے۔ذات حق کی آزمائش خواہ نعمت لے کر کرے یادے کرکرے بہت ہی کٹھن مرحلہ ہے۔
صبر اور شکر دونوں مقام عارفین کا ملین اور واقفین کے ہیں جن پر عام آدمی کا گزر بھی نہیں۔
صبر اور شکر دونوں نعمتیں ہیں۔لیکن ذائقہ اور لذت الگ الگ ہے۔صبر کی ابتداترک شکایت ہے اور انتہا ترک رضا سے ہے۔صبر کرنے والے کی اپنی رضا ہوتی ہی نہیں ہے۔شکر کی حقیقت یہ ہے کہ نعمتوں کی موجودگی اور غیر موجودگی دونوں شاکر کے لیے برابر ہیں۔یعنی نہ نعمت کے آنے کی خوشی اور نہ نعمت کے جانے کاغم۔

Browse More Islamic Articles In Urdu