Episode 1 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 1 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

انتساب!

مجرم کی معصوم بچی
مَیری کے نام

سعادت حسن منٹو

مقدمّہ!
سرگزشتِ اسیر
فرانس کے مایہٴ ناز بین الملّی شاعر، ادیب اور مفکر وکٹر ………… ہیو گو ”VICTOR HUGO“ کی ہستی محتاج تعارف نہیں۔
وہ اپنی لاثانی وغیر فانی تصنیف”مصیبت زدگان“ یعنی (LEISEDABLE SYS) سے شہرت دوام حاصل کرچکا ہے۔ فی الحقیقت فرانسیسی انشا پرداز اپنے زمانہ (1885۔2002) میں فطرت انسانی کا بہترین ماہر تھا۔ سوسائٹی یعنی مجلسی دائرے کے پیدا کردہ عیوب اور اخلاقی تباہیوں سے وہ اس قدر متاثر ہوا کہ اس کی ہر تصنیف اس چیز کی آئینہ دار ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

وہ امراء کی تعیش پسندی کو نفرت وحقارت کی نگاہوں سے دیکھتا۔

گرسنہ شکم اور برہنہ جسم غرباء کی حالت سے متاثر ہوتا۔ اس کے نزدیک تمام عیوب سوسائٹی کے پیدا کردہ ہیں اور انسان جب سوسائٹی کی قیود سے آزاد ہونا چاہتا ہے، تب سوسائٹی اپنے یک طرفہ غیر آئینی اور ناقابل قبول قوانین سے اُسے مصائب اور نوائب میں اس خیال سے دھکیل دیتی ہے کہ اس کی اصلاح ہو۔ حالانکہ ایسا کرنے سے اصل اصلاح نہیں ہوسکتی۔
وہ غرباء کی منتہیٰ اور غیر مختم تکالیف سے متاثر ہو کر لکھتا ہے:۔
”ترازوئے عدل کی طرف دیکھو۔ تمام مصائب غرباء کے لیے اور تمام مسرّتیں امراء کے لیے۔ دونوں پلڑے مساوی ہیں۔ ترازوئے عدل کو دھوکا نہیں دینا چاہیے۔ اور نہ ہی حکومت کو اس دھوکہ میں مدد کرنی چاہیے۔ کیونکہ اس سے غرباء کے مصائب میں اضافہ ہوتا ہے۔
تم عدل وانصاف کو کام میں لاؤ۔ تاکہ غرباء کو معلوم ہوجائے کہ ان کے لیے نیلگوں آسمان کے نیچے کوئی جائے پناہ ہے۔
ایک ارضی جنّت ہے، جس کی لطیف فضاؤں سے وہ بھی متمتع ہوسکتا ہے۔ اس کا مرتبہ بلند کرو، تاکہ اسے بھی معلوم ہو کہ امراء کی تعیش پسندی میں وہ بھی برابر کا شریک ہے۔
جس چیز نے ہیوگو کے دماغ کو حد سے زائد پریشان کیا جس مسئلہ نے ہیوگو پر راتوں کی نیند حرام کردی، جس قانون نے اس کے قلم کو اعجاز بخشا، وہ سزائے موت کا خونی فتویٰ تھا۔
اس کے نزدیک وہ کتاب قانون کا سیاہ ترین ورق تھا۔
جس میں متفقہ طور پر موت کی سزا کو جائز قرار دیا گیا تھا۔ ہیوگو فتوے موت کو فرانسیسی مقنّین کی عدل وانصاف کی رُو سے غداری بتاتا ہے۔ وہ اپنے ہم وطنوں کو دعوت مبازرت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ان کے پاس سزائے موت کے جواز میں جس قدر بھی دلائل وبراہین ہیں، وہ ان سے آگاہ کریں۔ وہ لوگ جو سزائے موت کو جائز قرار دیتے ہیں، دلائل پیش کرتے ہیں کہ ایسے متنفس کا وجود جس نے مجلسی زندگی میں تلخی پیدا کی، قابل اخراج ہے۔
سب سے بہترین دلیل جو وہ پیش کرتے ہیں، وہ نظریہٴ عبرت ہے۔ ہیوگو نظریہ عبرت کے خلاف مثالیں پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے:۔
’اگر ان مثالوں کی موجودگی میں بھی تم نظریہٴ عبرت کے قائل ہو تو گردش ایام کا رخ ماضی کی طرف پھیر کر ہمیں سولہویں صدی عیسوی میں لے چلو۔ حقیقت میں خوفناک بن جاؤ، ہمارے لیے تکالیف ومصائب کے درواز ے کھول دو۔ ازمنہ عتیق کی بربری سزائیں اور ازسر نو رائج کر دو ہر راہگذار پر تختہ دار کو نصب کردو۔
بدنی سزا کو عام کردو، پیرس کے بازاروں میں دیگر دوکانداروں کی طرح ایک دوکان جلاد کی ہو، جہاں انسانی گوشت پوست دیگر اجناس کی طرح فروخت ہو۔ فنا کو بادہٴ ہر جام کرنے اور سزائے موت کو اس طرح عام کرنے سے تم نظریہ عبرت کو زیادہ کامیاب بناسکتے ہو۔“
ہیوگو تنسیخ سزائے موت کے معاشری اور مجلسی اسباب پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے:۔
میزانِ عقل میں بڑے بڑے جرم کو تولو، تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ سوسائٹی کو اس چیز سے محروم کر دینے کا کوئی حق حاصل نہیں، جسے وہ عطا نہیں کرسکتی۔
جس انسان کے لیے تم موت کی سزا تجویز کرتے ہو، اس کی معاشری زندگی مندرجہ ذیل صورتوں میں ہوسکتی ہے۔
اولاً وہ شخص افراد خاندان اور صحبت احباب سے محروم ہے۔ اس صورت میں وہ صحیح تعلیم وتربیت حاصل نہیں کرسکا۔ جب اس کے دماغ کی اصلاح کے لیے کوئی سعی نہیں کی گئی تب تمہیں اس معاشری یتیم کے قتل کرنے کا کیا حق ہے؟
تم اسے اس لیے قتل کرتے ہو کہ اس کا عہد طفولیت عدم نگہداشت کی نظر ہوا۔
تم اسے اپنے کیے کی سزا دیتے ہو۔ تم اس بدبخت کو جرم کا لباس پہناتے ہو۔
کیا تم اسوقت خوفزدہ نہیں ہوتے جب تم اس کے لڑکے اور لڑکیوں کا خیال کرتے ہو ……… ان بچوں کا جن سے زندگی کا سہارا چھین لیا گیا، کیا تم محسوس نہیں کرتے کہ آئیندہ پندرہ برس میں بیٹا زندان میں ہوگا اور بیٹی تعیش پسند امراء کی نفسانی خواہش کے بجھانے کا ذریعہ ہوگی۔
جس طرح ہیوگو نے غرباء کے مصائب سے متاثر ہو کر”مصیبت زدگان“ لِکھی ٹھیک اسی طرح سزائے موت کے مجرم کے اندر احساسات اور قلبی کیفیات سے اثر پذیر ہو کر اس نے ایک کتاب ”The Last Days Of Foundemend“ لکھی۔
کتاب کا انداز تحریر پڑھنے والوں کے دماغ سے گزر کر اُن کے دل پر منقش ہوجاتا ہے۔ کتاب فی الحقیقت ایک بین الملّی المناک داستان ہے۔ قانون دان طبقہ اور فطرت انسانی سے دلچسپی لینے والے حضرا ت کو چاہیے کہ وہ اس کتاب کا ضرور مطالعہ کریں۔
میں نے ہیوگو کے اس شاہکار کو اُردو کا جامہ پہنایا ہے۔ ترجمہ کرتے وقت میرے پیش نظر دو مقاصد تھے۔ اولاً ہیوگو کا تنسیخ سزائے موت کا نظریہ۔ ثانیاً وطنی ادبیات کی خدمت۔ ممکن ہے کہ میں اپنے موخر الذکر مقصد میں کامیاب نہ ہوسکوں ، بہرحال میں نے سعی ضرور کی۔

سعادت حسن منٹو 

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto