Episode 33 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 33 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

(۴۲)
میں نے سونا چاہا اس لئے بستر پرلیٹ گیا۔ خون کے دوران کی تیزی وارفتگی اور پریشان خیالات نے مجھے تھپکی دیتے ہوئے سلا دیا۔ نہیں بے ہوش کردیا، یہ بے ہوشی میری آخری نیند ہے۔ اسی بے خودی میں ایک خواب دیکھا۔ ”کہ رات ہے۔ اور میں دو تین دوستوں کے ساتھ اپنے کمرے میں بیٹھا باتیں کر رہا ہوں، باتیں جو ہولاک اور روح فرستا ہیں۔
اچانک میں نے دوسرے کمرے میں کچھ آواز سنی،آواز جو کسی دروازے کی چٹخنی کھولنے سے پیدا ہوتی ہو۔ اس خوفناک آہٹ نے ہم سب کے اوسان خطا کردئیے ہمارے خون کو رگوں میں منجمد کردیا۔ ہم نے یہی خیال کیا کہ چور گھر میں گھس آئے ہیں۔اس لئے ہم اس کی جستجو کے لئے اٹھے ہیں شمع ہاتھ میں لئے سب کی رہنمائی کر رہا تھا۔
ہم کمرہٴ شب خوابی سے گزرے، وہاں میری بیوی اپنی بچی کوپہلو میں لٹائے سو رہی تھی۔

(جاری ہے)

اس سے گزرتے ہوئے ہم بڑے کمرہ میں پہنچے، مگر وہاں بھی اس اسرار کا سراغ ہاتھ نہ لگا۔ خیال آیا کہ شاید کمرہ طعام میں ہی سے گوہر مقصود حاصل ہوجائے، لہٰذا اس طرف قدم بڑھائیے۔
کانپتے ہاتھوں سے میں نے دروازہ آہستہ آہستہ وا کیا، حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب ایک معمر عورت کو فوق الفطرت حالت میں دیوار کے ساتھ کھڑا پایا، بے جان تصویر کی طرح بے حس وحرکت دیوار سے چسپاں۔
اس کی موجودہ ہیئت کذائی اس قدر وحشت خیز تھی کہ اس کا خیال کرتے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
”کیا کہہ رہی ہوں تم۔“ میں نے بالاخر جرأت سے کام لیتے ہوئے کہا۔
وہ خاموش رہی۔
”تم کون ہو؟“ میں نے چلّاتے ہوئے کہا۔
مگر وہ پھر نہ بولی اور آنکھیں بند کئے ویسے ہی جمی رہی۔میں نے اس سے دوبارہ سہ بارہ سوال کیا۔ مگر بے سُود۔
ایک نے تنگ آ کر اسے دھکا دے دیا۔ اسے دھکیلنا ہی تھا کہ وہ بے جان گھڑی کی طرح زمین پر آرہی۔
اس حادثہ نے ہمارے رہے سہے حواس گُم کردئیے۔ وہ کیا مُردہ تھی؟“
اس کی ٹھوڑی کو ذرا شمع کی لَو تو دکھاؤ؟“
مجھے ایک دوست نے رائے دی میں نے اس کے کہنے پر عمل کرتے ہوئے اس معمر عورت کی ٹھوڑی کے نیچے شمع رکھ دی اس پر اس نے ایک آنکھ کھولی، آنکھ وہ خوفناک آنکھ جو بینائی سے محروم تھی۔
”تم کون ہو؟ شیطان کی خالہ میں نے اس سے دریافت کیا۔ مگر یہ کہنا ہی تھا کہ اس نے آنکھ بند کرلی۔
”پھر اس عمل کو دہراؤ۔“ میرے دوستوں نے کہا۔ جو اس معمہ کو حل کرنے کے لئے بہت بے چین تھے۔
میں نے پھر شمع اس کی ٹھوڑی کے نیچے رکھی دی اس دفعہ اس نے دونوں آنکھیں کھول دیں۔ مگر ایسی تیزی سے آگے بڑھی اور شمع کو گل کردیا۔
قیامت کی تاریکی چھا گئی …… اسی وقت میرے بازو میں کسی کے تین دانت پیوست ہوگئے …… فرط خوف سے میں بیدار ہوگیا۔
پادری میرے سرہانے بیٹھا دعا پڑھ رہا تھا۔
”میں زیادہ سویا ہوں کیا؟“
”میرے بیٹے! تم نے صرف ایک گھنٹہ نیند کی ہے۔ ماما تمہاری لڑکی کو ملحقہ کمرے میں لئے تمہارا انتظار کر رہی ہے۔“
”آہ! میری لڑکی! میرے جگر کا ٹکڑا کیا؟ خدا کے لئے اسے جلد میرے پاس لاؤ۔“

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto