Episode 15 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 15 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

(۷)
فرض کرلیا جائے کہ میری داستان زندان ایک روز دوسروں کے لیے مفید ثابت ہو … ججوں کو سزائے موت کا فتویٰ دیتے وقت کپکپی پیدا کردے …… مجرموں اور بے گناہوں، دونوں کو اس مصیبت سے جس میں کہ میں ان دنوں گرفتار ہوں بچا لے تو مجھے اس سے کیا فائدہ، جب کہ میرا سر تیز دھار چھُرے سے کاٹا جاچکا ہوگا۔ میں کسی خاموش قبرستان میں منوں مٹی تلے سو رہا ہوں گا تو مجھے کیا، میری طرف سے ہزاروں کی جانیں لیں، لاکھوں کے سر قلم کریں، میں تو اسوقت اپنی زندگی کے دن پورے کرچکاہوں گا۔
کیا میں نے مقتل کی اس جگہ کو جس جگہ کو میرے جسم کا خون بہے گا، اُلٹنے کی ناکام سعی کا خیال کیا ہے؟ جب کہ سورج کی زندگی بخش روشنی، بہار کا سہانا موسم، ہرے بھرے کھیت، پرندوں کا چہچہانا، نیلگون آسمان، لانبے درخت، برسات کی کالی کالی گھٹائیں، قدرت کی نیرنگیاں، زندگی اور موت میرے لیے نہ ہوگی۔

(جاری ہے)

نہیں! نہیں! یہ سب کچھ میرے لیے ہے، میں زندہ رہونگا، زندہ رہنے کی کوشش کروں گا۔

یہ ضروری ہے کہ میں ضرور موت کے گھاٹ اُتارا جاؤں گا؟ آہ! میرے پروردگار! اس خیال کے آتے ہی دیوار سے سر پھوڑنے کو جی جاہتا ہے۔
(۸)
اب مجھے یہ سوچنا چاہیے کہ میری زندگی اور موت کے درمیان کتنے روز باقی ہیں۔ تین دن سزائے موت کے حکم کے بعد ملزم کو رحم کی درخواست کے لیے ملتے ہیں ایک ہفتہ کاغذات کی جانچ پڑتال کے لیے … دو ہفتہ وہ کاغذات وزیر کی میز پر فضول پڑے رہتے ہیں۔
وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کاغذ ہیں کِس بارے میں؟ حالانکہ مقدّمہ کی تمام کارروائی اس کے پاس اسلئے بھیجی جاتی ہے کہ وہ اس کا مطالعہ کر کے ان پر اپنی طرف سے رائے لکھ کر بادشاہ کے پاس بھیج دے …
دو ہفتہ اس حکم کی نظر ثانی کرنے میں صرف ہوتے ہیں تاکہ کہیں کسی سے بے انصافی نہ ہوجائے ……
اس کے بعد بادشاہی عدالت کا اجلاس منعقد ہوتا ہے جس میں وہ عموماً ان تمام درخواستوں کو رد کردیتے ہیں جو ان کی خدمت میں رحم کے لیے گزاری گئیں … وہ ان ردی کاغذات کو وزیر کے پاس بھیج دیتے ہیں جو فوری عملدرآمد کے لیے انہیں جلاد کے سپرد کردیتا ہے۔
اب صرف تین دن باقی رہ گئے ………
چوتھے دن سرکاری وکیل اپنے دل میں کہتا ہے۔ ”اس معاملہ کا جلد خاتمہ ہونا چاہیے، چنانچہ اس کے حکم سے اسی صبح بازار کے چوک میں پھانسی دینے کا چبوترہ تیار ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ راہ گزروں کے لیے خونیں چبوترہ بہت دلچسپی پیدا کردیتا ہے …… اس کے بنتے وقت بہت سے تماشائی اس کے اردگرد جمع ہوجاتے ہیں۔
کُل چھ ہفتہ ہوئے! زندگی اور موت کے درمیان صرف چھ ہفتہ!! اس بھولی لڑکی کا اندازہ بالکل درست تھا؟

(۹)
میں نے آج اپنی وصیت مرتب کرلی ہے۔ فضول ہے! میری تمام جائیداد تو وکیل کے اخراجات بھی پورے نہ کرسکے گی پھانسی! پھانسی! بھی کتنی گراں ہے۔ میرے پسماندگان میں صرف ماں، بیوی اور بچہ ہوگا۔
ایک ننھی سی لڑکی تین سال کی معصوم بچی۔
جب میں نے اسے چھوڑا تھا، تو وہ ابھی دو سال اور ایک ماہ کی تھی۔
چنانچہ میری موت کے بعد والدہ اپنا لڑکا، بیوی اپنا خاوند اور لڑکی اپنا باپ کھو بیٹھے گی۔ تین عورتیں مختلف شکلوں میں یتیم ہوجائیں گی۔
مجھے اپنی والدہ کا اتنا غم نہیں، وہ بیچاری عمر رسیدہ ہے۔ اس دردناک واقعہ کی تاب نہ لاسکے گی، مرجائے گی۔ غم واندوہ کے درد تکالیف سے نجات پائے گی نہ مجھے اپنی بیوی کا ہی فکر ہے، وہ پہلے ہی سے صاحب فراش ہے یہ واقعہ اس کے عقل و ہوش کو چھین لے گا، میری یاد پھر اسے نہ ستائے گی۔
اگر فکر ہے تو اپنی ننھی معصوم بچی کا، اس بھولی بھالی میری کا جو اس وقت بھی اس ہونے والے حادثہ جانکاہ سے بے خبر گھر میں کھیل رہی ہوگی جس کے کان برائی کے لفظوں سے نا آشنا ہیں۔
آہ! صرف اُس کی یاد مجھے بزدل بنائے گی۔

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto