Episode 30 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 30 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

(۳۳)
میں نے آنکھیں بند کرلیں چہرے کو ہاتھوں سے ڈھانپ لیا اور حال کو مستقبل میں محو کرنا چاہا۔
عہد طفولیت اور جوانی کے گزرے ہوئے پیارے ایام کا تصور میرے مجروح دماغ میں ان شگفتہ، تروتازہ غنچوں سے لدے ہوئے جزیروں کی طرح ہے جو کسی سیاہ سمندر سے گھرے ہوئے ہوں … کتاب طفولیت کی ورق گردانی کر رہا ہوں جب کم سنی میں ہرے بھرے کھیتوں میں قلابازیاں لگاتا ، ہنستا دوڑتا تاریخ وفکر سے آزاد کھیل کود میں مصروف ہوتا۔
چار سال کے بعد بھی وہی بھولا اور معصوم بچہ تھا۔ مگر فرق اتنا کہ کسی خوبصورت باغ میں میرے پاس ایک رفیق تنہائی بھی تھا … ایک نو عمر لڑکی کی بڑی بڑی آنکھوں، درشب دیجور ایسی سیاہ بالوں کی مالکہ، چودہ کاسن غضب کا جوبن لب لعلیں اور سرخ رخسار جس کی نزاکت اور خوبصورتی گلاب کو شرمندہ کر رہی تھی۔

(جاری ہے)

ہماری مائیں ہمیں سیر کرنے کے لئے بھیجتیں۔
لیکن ہم سیر کی بجائے خلوت میں باتیں کرتے …… باتیں …… میٹھی میٹھی باتیں، میرا اور اس کا جھگڑا ہر روز ایک نکمے سیب پر ہوتا۔ وہ رو پڑتی اور اپنی ماں کے پاس شکایت کرنے چلی جاتی مگر ایک سال بعد وہ میرے بازو کاسہارا لئے کھڑی تھی۔ اور میں پُر فخر آدمی کی طرح اپنے دل میں جذبات اور محبت کا ہجوم لئے ہوئے اس کی شوخ نظروں کی طرف دیکھ رہا تھا۔
ہم آہستہ آہستہ ٹہلتے، آہستہ بولتے، میں اس کے لئے پھول اکٹھے کرتا اور جب ہم ملتے تو فرطِ محبت سے ہمارے ہاتھ کانپتے۔ وہ میرے ساتھ پرندوں، نیلے آسمان اور قدرت کی دیگر نیرنگیوں کی بابت سیمیں آواز میں گفتگو کرتی! ہم دنیا سے بے خبر اپنی دُھن میں محو ہوتے، معصومانہ گفتگو کرتے مگر وہ اچانک شرما جاتی …… کل کی بھولی بھالی بچی اب جوان ہوگئی تھی۔
بازو میں بازو ڈالے ہم شاہ بلوط کے بلند اور تنا ور درختوں کی اوٹ میں گلگشت کرتے تو وہ اچانک چپ سی ہوجاتی۔ میرے بازوؤں سے اپنے بازو کو ہٹا لیتی اور کہنے لگتی۔ ”آؤ ہم دوڑیں۔“
اس کی تصویر اب بھی آنکھوں کے سامنے پھر رہی ہے اس کے دماغ میں بچّوں جیسا خیال آگیا تھا۔ اور کہا تھا، چلو ذرا دوڑیں۔“
وہ میرے آگے دوڑنا شروع کرتی۔
ایسا کرتے وقت اس کی نازک کمر سانپ کی طرح بل کھا رہی ہوتی۔ کبھی کبھی باد نسیم کے جھونکے گستاخانہ انداز میں اس کے مرمرین جسم کو برہنہ کردیتے۔
آخر کار میں اسے پکڑ لیتا اور بیدار بخت فاتح کی طرح اس کو بنچ پر بٹھا دیتا۔ سرتاپا تبسم ہانپتی ہوئی میری طرف دیکھ کر کہنے لگتی۔ ابھی تو دن کی روشنی باقی ہے آؤ کچھ پڑھیں۔“
میں اس کے پہلو میں بیٹھ جاتا اور ہم کتاب کھول کر پڑھنے لگتے۔
ورق کو الٹنے سے پیشتر اسے میرا انتظار کرنا پڑتا وہ مجھ سے کہیں زیادہ زود خواں تھی ……
”صفحہ ختم کرلیا؟“ وہ مجھ سے کہتی، حالانکہ میں نے ابھی پڑھنا ہی شروع کیا ہوتا۔ تب ہمارے دل آپس میں مل جاتے ہمارے بال آپس میں آنکھ مچولی کھیلنا شروع کردیتے ہمارا سانس ایک دوسرے سے مل جاتا۔ ہمارے ہونٹ آپس میں پیوست ہوجاتے اور جب ہم اس نشہ کے خمار سے ہوش میں آتے تو آسمان جگمگاتے ہوئے تاروں سے مزین ہوتا۔
”اوہ! امی اگر تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے آج کی سیر سے کس قدر لطف اٹھایا ہے!“ وہ واپسی پر اپنی ماں سے کہتی۔
”مگر تم چپ چپ سے ہو“ میری والدہ کہتی، اسے کیا معلوم تھا کہ میرے دل میں اس وقت جنت آباد ہوتی تھی۔ میرے جیسا اور کوئی شخص اس وقت روئے زمین پر نہ تھا۔
یہ ان پیاری شاموں سے ایک شام ہے جس کی یاد میرے دل سے کبھی محو نہیں ہوسکتی …… جسے میں تمام عمر نہ بھولوں گا۔“

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto