Episode 21 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 21 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

(۲۱)
اب مجھے کامل سکون حاصل ہوگیا ہے۔ تمام امیدوں کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ آج سے پہلے میرے دل میں امید کی آخری کرن باقی تھی۔ سو وہ بھی چلی گئی، خدا کا شکر ہے۔ ہزارہا شکر ہے کہ امید کا وہ موہوم خیال جو میرے لیے سوہان رُوح ہو رہا تھا، اب باعث تکلیف نہ ہوگا۔ ساڑھے چھ بجے، نہیں! نہیں پونے سات بجے میرے کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک معمر شخص اندر داخل ہوا۔
وہ بڑا سا لبادہ پہنے تھا میں نے اس کے لباس سے اندازہ لگایا کہ وہ کوئی پادری ہوگا۔
وہ میرے مقابل چارپائی پر بیٹھ گیا۔ مسکراہٹ اس کے لبوں پر کھیل رہی تھی، اپنی آنکھیں چھت کی طرف اٹھاتے ہوئے اس نے کہا”میرے بچے! کیا تم تیار ہو؟“
”میں بالکل تیار ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے میری آنکھوں میں اندھیرا سا چھا گیا۔

(جاری ہے)

ایک سرد لہر میرے جسم میں سرعت سے دوڑ گئی، میری کنپٹیوں کی رگیں پھول گئیں اور کانوں میں شور بپا ہونے لگا۔

مجھے ایسا معلوم ہوا کہ پادری کچھ کہہ رہا تھا کیونکہ اس کے لب جنبش کر رہے تھے۔ اور وہ ہاتھوں سے کچھ اشارے کر رہا تھا۔
کوٹھری کا دروازہ پھر کھلا، دو آدمی اور داخل ہوئے ان کے آنے سے میرے پراگندہ اور آوارہ خیالات پھر جمع ہونے شروع ہوگئے، میں اب دیکھ اور سن سکتا تھا۔ ان میں سے ایک جو ہاتھ میں بڑا سا کاغذ پکڑے ہوئے تھا میری طرف آیا اور جھک کر سلام کہنے لگا۔
”جناب میں شاہی دربار کا نقیب ہوں اور حضور کے واسطے سرکاری وکیل کی جانب سے ایک پیغام لایا ہوں۔“
میری بے ہوشی اب بالکل دور ہوگئی تھی۔ ”پیغام لائے ہو؟ خیر! اسے میرا سر ابھی ابھی درکار ہے کیا؟ مجھے امید ہے کہ میری مرگ سے اُسے بہت خوشی حاصل ہوگی۔ کیوں نہ ہو، بیچارے نے اس کی خاطر تھوڑی تکلیف اُٹھائی ہے۔“ یہ کہہ کر میں نے آواز کواور مضبوط بنایا اور کہا جناب اس پیغام کو پڑھ کر سنائیے۔
اس پر اس نے وہ کاغذ پڑھنا شروع کیا، جو شروع سے آخر تک بڑے بڑے لفظوں سے پُر تھا۔ اس کامطلب یہ تھا کہ میری درخواست رحم شاہی دربار نے مسترد کردی ہے، اور پھانسی اسی دن عمل میں لائی جائے گی۔
”آپ میر ے ساتھ ساڑھے سات بجے تشریف لے جائیں گے کیا؟“ اس حکم کو پڑھنے کے بعد مودبانہ لہجہ میں کہا۔
کچھ دیر تک تو میں اس کو بالکل نہ سن سکا، کیونکہ جس وقت اس کی آنکھیں کاغذ پڑھنے میں مصروف تھیں۔
اس وقت نیم وا دروازے کی طرف پر امید نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ لیکن آہ! بدقسمتی!! ایک نہیں چار سنتری کمرے کے باہر پہرہ دے رہے تھے۔
شاہی ہرکارہ نے پھر وہی سوال دہرایا تو میں نے آہستگی سے جواب دیا، جیسے آپ کی مرضی ہو، میں ہر وقت تیار ہوں۔“
”تو پھر میں نصف گھنٹہ کے بعد آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گا، تیار رہیے آپ“ ہرکارے نے دروازے کی طرف مڑتے ہوئے کہا۔
وہ سب مجھے تنہا اس منحوس کوٹھری میں چھوڑ کر چلے گئے۔
کاش! میں فرار ہونے میں کامیاب ہوجاؤں، میرے پروردگار! کوئی ذریعہ مہیا کردے کہ میں یہاں سے بھاگ نکلوں۔
مجھے فراری کا کوئی نہ کوئی ذریعہ ضرور پیدا کرنا چاہیے۔ وہ دروا زے سے ہو یا چھت سے، کھڑکیوں سے ہو یا زمین سے، مگر مجھے یہاں سے بھاگ نکلنا چاہیے خواہ ایسا کرنے میں مجھے اپنا گوشت ہی قربان کیوں نہ کرنا پڑے۔
ایسا خیال کرنا سراسر بے وقوفی ہے، جہالت ہے، بہترین ہتھیاروں کی مدد سے بھی اگراس دیوار کو توڑنے لگیں تو بھی تین ماہ کے عرصہ سے کیا کم وقت خرچ ہوگا۔ آہ! ظالم شیطانو! سفاکو!! میں پاگل ہو رہا ہوں!!!!

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto