Episode 11 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 11 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

زِندان

سزائے موت
زندان کی چار دیواری میں متواتر پانچ ہفتوں سے یہی ہولناک حقیقت میرے لیے سوہان روح رہی ہے۔ اسی دہشت ناک خبر نے مجھ تنہا بے یارو مددگار کو دبا رکھا ہے۔
کبھی وہ بھی دن تھا جب کہ میں بھی آپ ہی کی طرح تھا، میرا دل جس میں ہر طرح کے ولولے کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔
مناظر فطرت کا متلاشی تھا، جب کہ ہر ساعت میرے لیے مژدہ لاتی۔ اور ننھی ننھی دوشیزگان کی یاد میرے دل میں چٹکیاں لیتی۔ جب کہ اُن حُسن کی دیویوں کے ساتھ چھٹکی ہوئی چاندنی میں شاہ بلوط کے گھنے درختوں کی اوٹ میں گلگشت کرتا …… جب کہ میں آزاد تھا۔
مگر اب قیدوبند میں ہوں۔ آئینی زنجیروں سے جکڑا ہُوا تنگ وتار کوٹھری میں بے بال وپر پرندہ کی طرح اسیر کیا گیا ہوں۔

(جاری ہے)

یہ تو ہے جسمانی قید۔ مگر میرے خیالات بھی اسی طرح مقید ہیں، صرف ․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․ اور صرف ایک خیال ……… ہیبت ناک مہیب ہے۔ اور ناقابل برداشت خیال مجھ پر پوری طرح مسلّط ہے۔ جس کی خوفناک یاد ایک گھڑی یا پل کے لیے بھی میرے دل سے محو نہیں ہوتی جس کی صحت کا مجھے کامل یقین ہے۔یعنی سزائے موت ․․․․․․․․․․․․․․․․․․ آہ! اس کا نام لیتے ہی میری رگوں میں خون منجمد ہوجاتا ہے۔
میں ہزار اپنا دل بہلاؤں اس کے بہلانے کے لیے اپنی آنکھیں بند کرلوں، مگر اس خیال …… اس حقیقت نفس الامزی کے دو برف ایسے ہاتھ مجھے پھر اسی وحشتناک حالت میں لے آتے ہیں۔یہ میرے پیچھے کسی بدرُوح یا بھُوت کی طرح پڑا ہُوا ہے۔ اگر خوش قسمتی سے کسی دن آنکھ لگ جاتی ہے تو یہ کمبخت ڈراؤنی اور خون سرد کردینے والی خوابوں میں خنجر کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔
میں ابھی ابھی ایک دہشت خیر خواب دیکھ کر بیدار ہوا ہوں۔میں نے اپنے دل کو ڈھارس دیتے ہوئے کہا۔ حوصلہ رکھو۔ یہ تو محض خواب تھا۔
لیکن میری خواب آلودہ آنکھوں کے سامنے خوفناک حقیقت میرا منہ چڑا رہی ہے مجھے اپنی قسمت کا فیصلہ آنکھوں کے سامنے نظر آرہا ہے۔ قید خانے کی زرد اور مرطوب دیواریں۔ اندھی سی لالٹین کی مدھم شعاعیں …… لوہے کے بھاری بھرکم دروازے۔
جیل کی سنتری کی خوفناک صورت …… میرے کپڑوں کی ہیئت کذائی کیا اس گھناؤنی حقیقت کی پرزور تائیدنہیں کر رہی ہے؟
مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی آواز میرے کانوں میں گونج رہی ہے، جو مجھے سزائے موت ایسا لرزہ خیز پیغام دے رہی ہے۔

(۲)
اگست قریب الاختتام تھا۔ موسم سُہانا اور خوشگوار
میرا مقدمہ تین یوم تک عدالت میں پیش ہوتا رہا۔
ہر روز کمرہٴ عدالت تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوتا تھا جیسے کسی مرگ پر لوگ ماتم پُرسی کرنے آئے ہوں ان تین ایّام میں منصف، وکیل، گواہ اور افسر ہر روز میری مصیبت زدہ آنکھوں کے سامنے گزرے میری دھندلی اور نحیف آنکھیں اس نظارہ کی تاب نہ لاسکیں۔ خوف وہراس کے مارے میں نے دو مکمل راتیں آنکھوں میں کاٹیں۔ مگر آخر انسان تھا، تین دن کی متواتر ذہنی کوفت اور ماندگی نے مجھے مُردہ سا کردیا تھا۔
لہٰذا نیند نے، اس نیند نے جو مجھے ہفتوں سے نصیب نہ ہوئی تھی سلا دیا۔
میں ابھی اس غفلت کی نیند سے بیدار نہ ہوا تھا کہ سپرنٹنڈنٹ جیل نے مجھے بلا بھیجا، خفیف آہٹ آج سے پہلے مجھے گہرے خیالات سے چوکنّا کردیتی تھی مگر آج محافظ کے لوہے کے بوٹ کی بھاری آواز … آہنی میخوں کی لرزہ خیز جھنجناہٹ بھاری بھرکم دروازے کی خوفناک رگڑ مجھے اس بیہوشی سے خبردار نہ کرسکی، اچانک میں نے اپنے کندھوں پر کوئی سخت سا ہاتھ محسوس کیا، اور کانوں میں کسی شخص کو دُرشت لہجہ میں پکارتے ہوئے سُنا:۔
”اُٹھو!تمہیں بُلایا ہے۔ انہوں نے“
میں نے اپنی آنکھیں کھولیں، اور تنکوں کے بسترے پر اٹھ کربیٹھ گیا۔ جیل کے محافظ کی ڈراؤنی شکل میرے سامنے تھی۔

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto