Episode 20 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 20 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

(۱۸)
میں ابھی یہ کہہ رہا تھا کہ میری لالٹین کی روشنی مدھم پڑ گئی، دن کی روشنی اس روشنی پر غالب آگئی تھی۔ گرجا گھر کی گھڑی کی مدھم آواز چھ بجنے کا پتہ دے رہی تھی۔
دروازہ کھلا۔ محافظ جیل اندر داخل ہوا۔ ٹوپی اتار کر سلام کرتے ہوئے اسنے میرے تخلیہ میں مخل ہونے کی معافی چاہی۔ وہ میرا ہر روز ناشتہ لے کر آتا مگر آج!
آج اس کے بشرے سے کچھ اور ہی ہویدا تھا۔
اپنی کرخت آواز کو ملائم بناتے ہوئے اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں کیا چیز کھانا پسند کروں گا۔ اس کا کہنا تھا کہ میرے جسم میں سرد لہر دوڑ گئی … … کیا وہ ……… وہ خوفناک واقعہ کل پیش آنے والا ہے؟
(۱۹)
ایسا نرم سلوک صرف ایک دن کے لیے ہے۔

(جاری ہے)

جیل کا گورنر خود مجھے ملنے آیا۔ اس نے میرے آرام وآسائش کے لیے محافظ جیل کو کچھ ہدایات دیں۔
اس نے مجھ سے یہ بھی دریافت کیا کہ میں اس سے ناراض تو نہ تھا یا مجھے اس سے کوئی شکایت تو نہ تھی۔
شکایت اور مجھے؟ …… جس کی زندگی اور موت کے درمیان صرف چند گھنٹوں کا فاصلہ ہے۔ قریب المرگ انسان کو کسی سے کوئی شکایت ہوسکتی ہے۔ واپس جاتے ہوئے اس نے بڑے ادب سے”جناب“ کہا۔
میں اچھی طرح جانتا تھا کہ ایسا نرم سلوک صرف ایک دن کے لیے ہے۔

(۲۰)
محافظ جیل خیال کرتا ہے، کہ مجھے اس سے اور اس کے ہم پیشہ لوگوں سے شکایت نہیں، وہ درست خیال کرتا ہے۔
اُن کے بارے میں کچھ شکایت کرنی سراسر بے وقوفی ہے، کیونکہ اُنہوں نے تو اپنا فرض ادا کیا ہے۔
وہ میری جان کی حفاظت کرتے رہے، کیا مجھے ان کا شکر گزار نہیں ہونا چاہیے؟ لیکن محافظ ہنس مکھ، نرم الفاظ اور خوشامدانہ لہجے رکھتے ہوئے بھی میری نظروں میں جیل کی کوٹھری سے کم نہیں۔
میرے گردُو نواح کی سب چیزیں مختلف اشکال میں زندان ہیں۔ یہ دیوار پتھر کا قید خانہ ہے، یہ دروازہ لکڑی کا جیل، قید خانہ! انسان اور چونے پتھر کی عمارت کامرکب ہے۔ میں اس کا شکار ہوں، اس نے مجھے اپنی دیواروں میں قید کرلیا ہے۔ اس کے قفل مجھے فرار ہونے نہیں دیتے، اور یہ محافظ کی تیز بین نگاہوں سے میری حفاظت کرتا ہے۔
آہ! میں بدنصیب تو پہلے ہی سے ہوں، الٰہی! کیا حشر ہوگا، وہ میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے!!

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto