Episode 43 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 43 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

جب کلاوے نے آنکھ کھولی تو اپنے آپ کو پٹیوں سے ملبوس ہسپتال میں پایا۔ اس کے آس پاس ہسپتال کی نرسیں کھڑی تھیں۔ ان میں سے ہر ایک نے اس کی طبیعت کا حال پوچھا۔
خون کی مقدار اس کے بدن سے خارج ہوچکی تھی۔ اور قینچی کے زخم بہت خطرناک صورت اختیار کرگئے تھے۔ مگر سب سے مہلک ضربات وہ تھیں جو موسیوڈی کے جسم پر پڑیں۔
ہوش آنے پر سوالات کی بوچھاڑ شروع ہوگئی۔
ناظم کے قتل کے بارے میں اس سے سوالات کئے جانے لگے۔ ان کے جواب میں اس نے بہادرانہ طور پر اعتراف جُرم کرلیا۔
تھوڑے دنوں بعد اس کے زخموں نے نہایت خوفناک صورت اختیار کرلی۔ جس کی وجہ سے اس کے جسم کی حرارت بہت تیز ہوگئی۔
نومبر۔ دسمبر، جنوری اور فروری علاج معالجہ میں ہی گزر گئے۔ معالج اور منصف دونوں اس کی حالت دیکھنے آتے … معالج اس کا علاج کرنے اور منصف تختہٴ دار مہیّا کرنے کے لئے۔

(جاری ہے)

خیر 16 مارچ 1832ء کو جب کلاوے بالکل رو بہ صحت ہوگیا تو اس کا مقدمہ ٹرائے کی عدالت میں پیش ہوا۔ کمرہ عدالت تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔
کلاوے کی ظاہری صورت نے ججوں کے دل میں اس کی نسبت اچھی رائے قائم کردی۔ اس کا خط بنا ہوا تھا۔ اور ننگے سر مجرموں کے لباس میں کٹہرے کے نزدیک کھڑا تھا۔
سرکاری وکیل نے بطور حفظ ماتقدم دروازوں پر پولیس افسر مقرر کردئیے تھے، تاکہ ان قیدیوں کے درمیان جو اس مقدمہ کے گواہ تھے، کوئی گڑبڑ واقع نہ ہو جائے۔
دوران مقدمہ ایک نئی مشکل پیش آئی۔ ان گواہوں یعنی قیدیوں میں سے کوئی شخص بھی اس معاملہ کے متعلق گفتگو کرنے کو تیار نہ تھا۔ ججوں اور انسپکٹروں نے دھمکیاں دیں۔ مگر بے سود۔ وہ کلاوے کے خلاف ایک لفظ بھی اپنے منہ سے نکالنے کے لئے تیار نہ تھے۔
کلاوے کا اصرار اور ہدایت ہی صرف ان کی زبان کھلوا سکی۔ جس پر انہوں نے چشم دید حالات کو من وعن سنا دیا … جہاں کہیں وہ اس خونی داستان کے بیان دینے میں رُک جاتے، کلاوے اُن کو صحیح واقعہ بتلا دیتا۔
اِس منظر کو دیکھ کر کمرہ عدالت میں موجود عورتوں کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ اب نقیب نے ایلبن کو پکارا۔
ایلبن وفور جذبات سے متاثر سرتاپا تھرتھراتا ہوا آیا۔ اور آتے ہی اپنے آپ کو کلاوے کی بانہوں میں ڈال دیا۔
”یہ وہی بدبخت انسان ہے جس نے ایک بھوکے کو روٹی کھلائی … “
کلاوے نے سرکاری وکیل کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
یہ کہہ کر وہ ایلبن کی طرف بڑھا اور اس کے ہاتھوں کا بڑی محبت سے بوسہ لیا۔
جب سب گواہوں کا بیان ہوچکا تو سرکاری وکیل اُٹھا اور جیوری طرف مخاطب ہو کر کہنے لگا:۔
”جیوری کے جملہ اراکین! سوسائٹی کو بہت رنج ہوگا۔ اگر اس قسم کے قاتلوں کو سزائے موت نہ دی گئی۔ جس نے …“
سرکاری وکیل کے بیان کے بعد کلاوے کے وکیل نے جرح کی …… جرح عموماً ایسی نام نہاد عدالتوں میں اس موقع پر ہوا کرتی ہے۔
کلاوے کا بیان ہوا تو حاضرین کی آنکھیں فرطِ حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ جب انہوں نے ایک غریب اور جاہل مزدور سے ایک فاضل مقرّر کے سے الفاظ سنے بغیر کسی لغزش کے کلاوے نے تمام واقعات کمال راستبازی سے بیان کردئیے۔ وہ کٹہرے میں اس انداز سے کھڑا تھا، جیسے وہ سچ بولنے پر تلا ہوا ہے۔
دورانِ بیان بعض دفعہ ایسا موقع آتا کہ ہجوم پر اس کے ہر لفظ کا اثر دکھائی دیتا۔
اس شخص … علم سے محض نابلد شخص نے اس جواز میں بہت سے وزنی دلائل پیش کئے جن کی اس سے توقع نہ تھی۔ مگر دورانِ گفتگو میں اس نے ادب کو ہاتھ سے نہ جانے دیا لیکن جب سرکاری وکیل نے یہ کہا کہ قتل کی واردات فوری غصّہ اور رنج کا باعث نہ تھی تو کلاوے کے غصّہ کی کوئی انتہا نہ رہی۔
”مجھے رنج نہ پہنچا تھا کیا؟ درست ہے۔ اگر کوئی شراب سے مخمور مجھ پر حملہ کرتا اور میں اُسے جان سے ہلاک کردیتا تو تم اس فعل کو فوری غصہ پر تعبیر کرتے۔
سزائے موت کو حبسِ دوام میں تبدیل کردیتے۔ مگر ایک شخص نے جس نے ہر ممکن طریقہ سے مجھے مجروح کرنا چاہا، جو متواتر چار سال میری ذہنی اذیت کا باعث رہا۔ جس نے اسی قدر عرصہ تک مجھے ذلیل سمجھے رکھا۔ جو ہر روز میرا تمسخر اڑاتا، جس کا دن کے جوبیس گھنٹے اور چار سال تک یہی مشغلہ رہا کہ وہ اپنے ترکش کے تیر مجھ پر خالی کرتا رہے۔ جب میں نے اپنے مصائب ونوائب کے منبع کو بند کیا تو تم کہتے ہو کہ وہ عمل فوری غصّہ سے محرک ہوا۔

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto