
- مرکزی صفحہ
- مضامین و انٹرویوز
- خصوصی مضامین
- 5 کھرب ڈالر سالانہ کی تجارتی آبی گزر گاہ امریکی بالادستی کا شکار
5 کھرب ڈالر سالانہ کی تجارتی آبی گزر گاہ امریکی بالادستی کا شکار
بحیرہ جنوبی چین پر چین کی معاشی ترقی کے خلاف عالمی عدالت کا فیصلہ۔۔۔ 2020 ء تک امریکہ چین آبدوزوں کا بیڑا برابر ہوجائے گا، علاقائی تنازعات پیدا کرنے کا مقصد اسلحہ کی فروخت
جمعرات 3 اگست 2017

پانچ ٹریلین ڈالر سالانہ تجارت والی آبی گزرگاہ چین کی حاکمیت اعلیٰ کے دائرے میں آنے والے بحیرہ جنوبی چین جس کی تہہ میں تیل وگیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں عالمی عدالت کے فیصلے کا مقصد تنازعہ کی مصنوعی تخلیق کرکے چین کی ترقی میں رکاوٹ اور اس اہم خطے میں اسے غیر مستحکم کرنا ہے جبکہ چین امریکہ کے اس مطالبے کو مسترد کرچکا ہے کہ مصنوعی طریقے سے جزائر کو وسعت دینے کا چین کو کام روک دینا چاہیے۔ چین کا موقف ہے کہ وہ محض اپنی علاقائی حاکمیت کو بروئے کار لارہا ہے اور یہ کہ بحیرہ جنوبی چین میں حالات مجموعی طور پر پرامن اور مستحکم ہیں۔ چین کا مقصد اس علاقے میں متعین اپنے چینی عملے کی زندگی بہتر بنانے کے لئے ان جزائر کی حالت بہتر اور مستحکم بنانے کے ساتھ آئندہ سمندروں میں ہنگامی حالت کی صورت میں تلاش و امدادی آپریشنز میں اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں نبھا نا ہے۔
(جاری ہے)
تنازعات اور ان میں شدت پیدا کرنے کے خطرات کے حوالے سے پاکستان،بھارت جنوبی و شمالی کوریا چین کے بحیرہ جنوبی چین کے مسئلہ کو بڑھا کر بحران (چائے کی پیالی میں طوفان)پیدا کرکے بے یقینی کی کیفیت پیدا کردی جائے۔ بے یقینی کا شکار ملک دفاعی اخراجات بڑھا دیتے ہیں جس کا ہر گز مطلب اپنی سلامتی نہیں بلکہ ترقی یافتہ فوجی نظاموں کے حصول ان کی خطہ میں بلا ارادہ تنازعات اور مصنوعی شدت کو بڑھاوا دینے کا مطلب اپنی بالا دستی اور تحفظ (بیرونی طاقتوں سے)کے نام پر عوام کی جیبوں سے ٹیکس کی شکل میں اچھی رقم بھی جاتی ہے بلکہ نکلوالی جاتی ہے اور عوام بھی بڑی طاقتوں کی ایسی مفاداتی سیاست کا حصہ بن جاتے اور وکالت کرنے لگتے ہیں۔ امریکہ اور چین کے دفاعی اور تجارتی مفادات میں تضاد کا اہم نقطہ یہ ہے کہ امریکہ جنگی ہتھیار فروخت کرتا اور چین دوست ممالک کو ان ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی بھی دیتا ہے جس سے یہ ممالک اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے اور اس کے برعکس امریکہ کے دست نگر رہتے ہیں جیسے چین کا پاکستان کو تکنیکی مہارت اور علم دے دینا جبکہ امریکہ ڈرون ٹیکنالوجی دینے سے گریز اور چین اس خلا کو پورا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ بھارت کو نیو کلیائی تکنیک اور سہولت دیتا ہے تاکہ اس کے ذریعے چین کو دباؤ میں رکھے اور چین اس دباؤ کو کم کرنے کیلئے پاکستان کی دفاعی ضروریات کو مزید ترقی دیتا ہے کہ پاکستان کے ذریعے بھارتی دباؤ کو کم کرسکے۔ مشرق وسطیٰ کے حالات کیلئے ایسی ہی صورتحال ہے جس میں پاکستان چین کی دفاعی سٹرٹیجک اور مشرق وسطیٰ میں توازن قائم رکھنے کیلئے اہم ترین ملک ہی نہیں بلکہ انتہائی اہم راستہ بھی ہے اس تناظر میں ہیگ کی عالمی عدالت کا چین کے خلاف فیصلہ اور چین کے تاریخی حق کو قانونی بنیاد بنا کر چین کی پوزیشن کو خراب کرنے کا مقصد عالمی عدالت کے بارے سوالیہ نشان پیدا کرنا ہے عدالت کی عالمی اہمیت کو کم اور بے قدری کروانے کا مقصد امریکہ کیلئے محض یہی ہے کہ علاقائی اور عالمی معاملات کو سلجھانے کی بجائے پچیدہ اور ابہام میں مبتلا کرنا کشیدگی بڑھا کر اپنے مفادات حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے جبکہ عدالت ثالثی کا کردار ادا کرسکتی تھی لیکن ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ اس قانونی نقطے کی آڑ میں فیصلے کو متنازعہ بنادیا گیا۔ سفارتی کوششوں سے ایشیائی ممالک کے اند ر مسئلے کو موثر طریقے سے حل کیا جاسکتا تھا لیکن فلپائن پر دباؤ بڑھا کر ایک تیر سے دوشکار کیے گئے ۔ یوں فلپائن امریکی مفادات کی حکمت عملی کے جھوٹے پرچم کے پیچھے چھپ گیا اور مسئلے کے حل کی ہمسائیگی کی دانشمندانہ اہمیت سے بھٹک گیا اور چین کو ایک غیر مستند اور غیر موثر عدالت کے فیصلے کو رد کرنا پڑا اور کہنا پڑا کہ فلپائن کی یکطرفہ درخواست پر فیصلہ نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ چین اسے سختی سے رد کرتا ہے اور تسلیم نہیں کرتا۔ قبل ازیں ٹربیونل نے جنوبی چین کے سمندری جزیرہ پر چین کے تاریخی قانونی حق کے بارے میں فیصلہ دیا تھا کہ دعویٰ کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے اور یہ کہ اقوام متحدہ سمندر سے متعلق کنونشن کے قانون سے مطابقت نہیں رکھتا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قبل ازیں فلپائن دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے جزیرہ کے حل پے آمادہ ہوگیا تھا تو پھر بین الاقوامی عدالت میں درخواست دینے کی وجہ کیا تھی؟
وجہ بالکل سادہ ہے کہ فلپائن سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا کچھ ادوار سے ایک بہت ہی تعاون کرنے والا گاہک ہے اور پھر امریکہ اس علاقہ میں اپنی بالادستی رکھنا چاہتا ہے اور اس کے برعکس واشنگٹن نے ہمیشہ چین پر جارحیت کا الزام عائد کیا ہے جبکہ امریکہ کی اس کے سمندر میں موجودگی کو چین مسلسل نظر انداز کرتا رہا ہے، چین کے خلاف قانونی کیس میں اقوام متحدہ کے کنونشن برائے سمندر بارے امریکہ نے اس پر دستخط تک نہیں کئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے قانون کو ماننے سے انکا ر کیا ہے علاقے یا خطے میں امریکہ کا کوئی دعویٰ بھی نہیں ہے تو اس خطے میں فوجی موجودگی اور اسے وہاں رکھنے کا کیا جواز ہے؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
مزید عنوان
5 Kharab Dollar Salana Ki Tijarti Aabi Guzargah Amrici Bala Dasti Ka Shikar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 August 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.