عالمی تاریخی ورثہ کی تباہی

داعش کا اصل مقصد کیا ہے؟ ” ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں چاروں طرف شرک پھیلا ہو اہے اور ایسے میں ہم توحید کا علم بلند کیے خدا کی واحد انیت کا پیغام پھیلا رہے ہیں۔“ یہ الفاظ آئی ایس آئی ایس کے ایک مبلغ کی حالیہ ویڈیو ریکارڈنگ کے ہیں

جمعرات 28 اپریل 2016

Aalmi Tareekhi Virsa KI Tabahi
کامران امجد خان:
” ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں چاروں طرف شرک پھیلا ہو اہے اور ایسے میں ہم توحید کا علم بلند کیے خدا کی واحد انیت کا پیغام پھیلا رہے ہیں۔“ یہ الفاظ آئی ایس آئی ایس کے ایک مبلغ کی حالیہ ویڈیو ریکارڈنگ کے ہیں۔ ویڈیو میں اس مبلغ کے پیچھے آئی ایس آئی ایس (داعش) کے پیروکار بھی دیکھے جا سکتے ہیں جو ہاتھوں میں بڑے بڑے ہتھوڑے لیے بلڈورزرز اور دھماکہ خیز مواد کی مدد سے شمالی عراق کے قصبے خورس آباد میںآ ٹھویں صدی قبل مسیح کے تعمیر کردہ آسیری بادشاہ، سارگون دوم ، کے مجسموں کو مسمار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ویڈیو میں ان لوگوں کو مجسموں کے قریب ہی بنے انسانی سر اور پروں والے بیل کے مجسمے کو بھی توڑتے اور تباہ کرتے دکھایا گیا ہے۔

(جاری ہے)

موصل یونیورسٹی کے علوم نوادرات کے پروفیسر امیر المجیلی کے مطابق داعش نے جون 2014 میں عراق کے دوسرے بڑے شہر (موصل) کو فتح کرنے کے بعد سے اب تک یہاں تعمیر شدہ ایسے 160 تاریخی مقامات کو تباہ کر دیا ہے جہاں بے حد قیمتی نوادرات اور تاریخی اشیاء رکھی گئی تھیں۔

مجموعی طور پران تاریخی اور عظیم یادگاروں کو کتنا نقصان پہنچایا گیا اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ۔
احمد کامل محمد بغداد میں قائم عراق کے قومی عجائب گھر کے ڈائر یکٹر ہیں۔ اس عجائب گھر میں عراق میں دستیاب قیمتی وتاریخی نوادرات کا سب سے بڑا مجموعہ رکھا گیا تھا جسے 2003 میں بغداد پر امریکیوں کے قبضے کے بعد لوٹ لیا گیا ۔ احمد کامل احمد کے مطابق ”عراق میں آثار قدیمہ کے 12 ہزار قیمتی مقامات ہیں جن کی حفاظت کو یقینی بنانا بہتر مشکل ہے۔

ان مقامات کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد کے ذریعے اتحادی افواج کی حفاظت میں دے دینا چاہیے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ داعش عالمی ورثہ کو تباہ کرتے ہوئے کوئی تخصیص بھی روا نہیں رکھ رہی۔ ملک میں موجود اسلامی ورثے کی حالت بھی کوئی خاص مختلف نہیں ہے۔ آئی ایس آئی ایس کے جنگجو اپنے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے موصل میں بم دھماکوں سے ایک درجن سے زائد مساجد کو بھی شہید کر چکے ہیں۔

ان میں بارہویں صدی میں تعمیر کیا جانے والا وہ سلجوق مدرسہ بھی شامل ہے جسے انھوں نے صر ف اس لیے شہید کر دیا کیونکہ وہاں حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ کا مزار موجود تھا۔ آئی ایس آئی ایس نے موصل کی عوامی لائبریری اور تھیئٹر کو بھی آگ لگا دی تھی۔ سوال یہ ہے کہ آخرعالمی ورثہ کی تباہی سے داعش کیا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے؟
داعش ایک طرف ثقافتی ورثہ برباد کر رہی ہے اور دوسری طرف ترقیاتی منصوبوں کی تباہی کے بھی درپے ہے۔

اس حوالے سے ایک مثال بہت اہم ہے۔ انیسویں صدی کے بعد سے آثار قدیمہ کے ماہرین اسور حکمرانوں کے پایہ تخت کی دریافت کی امید میں موصل کے تاریخی مقام ”نبی یونس“ کے نیچے کھدائی کی اجازت حاصل کرنے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔”نبی یونس“ موصل میں واقع وہ پہاڑ کی چوٹی ہے جہاں حضرت یونس علیہ السلام کا مزار مبارک ہے اور اس کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ اس پہاڑ کے نیچے اسور حکمرانوں کی سلطنت کاپایہ تخت موجود تھا۔

غالباََ انھیں یہ شبہ تھا کہ یہاں سلسلہ اسور کے حکمران سارگون دوم کا وہ خزانہ موجود ہے جو اس نے آٹھویں صدی قبل مسیح میں اسرائیل کی بادشاہت ختم کر کے یہاں آباد بیس قبائل کو قیدی بنالینے کے بعد حاصل کیا تھا۔ 1860 میں عثمانی گورنر نے برٹش میوزیم کے ماہر آثار قدیمہ، سرآسٹن ہینری لے آرڈ، کو بھی یہ کہہ کر یہا ں کھدائی کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا کہ اس سے اس مقام کے حوالے سے اسلامی جذبات مجروح ہو سکتے ہیں۔


داعش کے سربراہ ابو بکر البغدادی کوبہر حال ایسا کوئی خدشہ نہ تھا۔ جولائی 2014 میں حضرت یونس کے مزار کو دھماکے سے اڑانے کے صرف دو دن بعد ہی داعش نے الجمیلی اور ان کے ساتھیوں کو طلب کر کے انسانی سر والے بیل اور بیسالٹ ریلیف کے آثار تلاش کر نے کے لیے ملبے کا مکمل معائنہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اس سب کو دیکھتے ہوئے ہی بغداد میوزیم کے ڈائریکٹر کامل کہتے ہیں ، ” وہ ان قدیم مقامات کو صرف تباہ نہیں کر رہے بلکہ ان کی کھدائی بھی کر رہے ہیں۔

دراصل ظاہر یہ ہو رہا ہے کہ داعش کے بلندو بانگ مذہبی دعووٴں کے پیچھے دراصل مخفی خزانوں کی تلاش کا مقصد کار فرما ہے۔“
فروری 2015 میں داعش کی جانب سے موصل کے نوادرات میوزیم کے انہدام کی جو ویڈیو پھیلائی گئی وہ دراصل ان نوادرات کی تشہیر کے لیے ڈیزائن کی گئی تھی۔ الجمیلی کے مطابق اس عجائب گھر کے الحضر ہال میں رکھے 30 اصل نمونوں میں سے داعش کے جنگجووٴں نے 10 کو تباہ کیا تھا۔

انھوں نے عجائب گھر کے ان حصوں کی فلم نہیں بنائی تھی جہاں زمانہ قبل از تاریخ، اسلامی دور اور اسور سلطنت کے دور کے انمول نمونے رکھے گے تھے کیونکہ وہ اشیاء برائے فروخت تھیں۔ الجمیلی کے مطابق انھوں نے الحضرہال میں جو تباہی مچائی اور اس کی ویڈیو تیار کی اس کا مقصد بلیک مارکیٹ میں اس طرح کے نمونوں کی مانگ اور قیمتوں میں اضافہ کروانا تھا۔

عراقی حکومت کے ایک مشیر کا اندازہ ہے کہ داعش پہلے ہی اسور سلطنت کی باقیات کے نمونے فروخت کر کے کروڑوں ڈالر کما چکی ہے۔ داعش دنیا میں سب سے بہترین مالیاتی نظام رکھنے والی دہشت گردتنظیم ہے جس کے اثاثوں کی مالیت کا اندازہ 8ملین ڈالر ہے۔ لیکن امریکہ کی طرف سے اس کی تیل کی تنصیبات پر بمباری کے بعد اب یہ دہشت گرد تنظیم آمدنی کے دیگر ذرائع تلاش کر رہی ہے۔


نوادرات کی فروخت اس قدر نفع بخش ہے کہ موصل کے لوگ اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ داعش کی طرف سے حاصل کی جانے والا پیسہ کہا ں جا رہا ہے؟ موصل سے لیکر شام میں اپنے پہلے دارالخلافہ، الرقتہ، تک شاہراہ کی تعمیر کے داعش نے کوئی ایسا کام نہیں کی جس سے یہ پتا چل سکے کہ نوادرات کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم اس پر خرچ کی گئی ہے۔موصل میں حکومتی عہدیداروں کو تنخواہیں تک قت پر نہیں ملتیں اور بے شمار مقامی لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ انھیں دو وقت کی روٹی کے لیے سخت جدوجہد کرنی پڑتی ہے ۔ تاہم داعش کا بڑھتا اثرو رسوخ اور نیٹ ورک اس بات کا ثبوت ہے کہ اس نے فنڈز کے حصول اور آمدنی کا موثر طریقہ تلاش کر لیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Aalmi Tareekhi Virsa KI Tabahi is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 April 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.