بھارتی فوج کی درندگی و سفاکیت کی بدترین مثال“آپریشن پولو“

مسلم ریاست پر فوجی چڑھائی کرتے ہوئے صرف تین دنوں میں دو لاکھ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا

پیر 4 اکتوبر 2021

Operation Polo
رابعہ عظمت
ستمبر کا مہینہ بھارتی مسلمانوں کے خلاف عدم تشدد کے علمبردار گاندھی کی اس سفاکیت کی یاد دلاتا ہے جو 1948ء میں ریاست حیدرآباد پر قبضے کیلئے کی گئی۔بھارتی فوج کی درندگی کو ”آپریشن پولو“ کا نام دیا گیا۔مسلم ریاست پر فوجی چڑھائی کرتے ہوئے صرف تین دنوں میں دو لاکھ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا۔

بچوں کو یتیم کیا،سینکڑوں مسلمان عورتوں کی عزتوں کو لوٹا گیا۔ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج نے مسلسل پانچ دنوں تک لوٹ مار کا بازار گرم رکھا۔1948ء میں حیدرآباد دکن میں ہونے والا قتل عام اس قدر بڑا تھا کہ 565 نوابی ریاستوں کے مجموعہ بھارت کے حکمرانوں نے اسے دبانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔

(جاری ہے)

وہ اس حقیقت کا دنیا پر منکشف ہونا برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے۔

حکمرانوں کے ساتھ باقی طبقات نے بھی اسے چھپانے کو قومی مفاد کا تقاضا سمجھا۔بھارتی دارالحکومت دہلی کے نہرو میموریل اور لائبریری میں چھپائی گئی سندر لال کمیشن رپورٹ کے مطابق 1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے دوران پاکستان اور بھارت کی سرحد کے قریب فسادات میں پانچ لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔لیکن ایک سال بعد ہی ستمبر اور اکتوبر 1948ء میں ایک اور قتلِ عام ہوا جس میں کم از کم 40 ہزار مسلمان شہید کر دیئے گئے۔

(بعض دیگر رپورٹس کے مطابق یہ تعداد 50 ہزار سے 2 لاکھ تھی)کچھ کو بھارتی فوجیوں نے صفوں میں کھڑا کرکے فائرنگ کرکے مار ڈالا۔
 اس کی تفصیلات کو اب تک راز میں رکھا گیا۔یہ قتلِ عام بھارت کے وسط میں واقع ریاست حیدرآباد میں ہوا۔حیدرآباد ان پانچ سو سے زائد ریاستوں میں سے ایک تھی جن کو برطانوی راج میں خود مختار ریاست کا درجہ حاصل تھا۔تقسیم ہند پر تمام ریاستیں بھارت کا حصہ بننے پر تیار تھیں لیکن حیدرآباد کے نظام عثمان علی خان کا کہنا تھا کہ وہ خود مختار ہی رہیں گے۔

بھارت کا حصہ بنیں گے نہ پاکستان کا۔بھارتی حکومت کو یہ بات پسند نہ آئی اس پر فریقین کے درمیان تناؤ کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔حکومت نہیں چاہتی تھی کہ وسط بھارت میں ایک مسلمان ریاست کو خود مختار رہنے دیا جائے۔اس کے فوراً بعد بھارتی حکومت نے ایسی خبریں پھیلانا شروع کر دیں کہ نظام حیدرآباد اپنی رضاکار فوج کے ذریعے معصوم شہریوں کے خلاف ظالمانہ کارروائیاں کر رہا ہے۔

مورخین ایسی خبروں کو بھارت کی طرف سے جارحیت کا پہلا مرحلہ قرار دیتے ہیں۔جس کے بعد وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور نائب وزیراعظم سردار پٹیل نے حیدرآباد میں فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔
یہ ستمبر 1948ء کی بات ہے کہ جب وزیراعظم نہرو نے فوج کو حیدرآباد میں داخل ہونے کے احکامات جاری کیے۔اس کارروائی کو ’پولیس ایکشن‘ کہا گیا لیکن اصل میں یہ فوج کی کارروائی تھی۔

اس کا تکنیکی نام ”آپریشن پولو“ رکھا گیا اگر بھارتی حکومت اسے ملٹری ایکشن کا نام دیتی تو اقوام متحدہ اس کا نوٹس لیتی کہ ایک ریاست دوسری ریاست پر چڑھائی کر رہی ہے۔بھارتی حکومت کی طرف سے جنگی پراپیگنڈہ کے طور پر نظام حیدرآباد کی قوت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔آپریشن کرنے والے جنرل جے این چودھری نے اپنی کتاب ”آمرڈ ڈویژن ان پولو آپریشن“ میں لکھا ہے”نظام کی باقاعدہ فوج کی تعداد 22 ہزار تھی،ان کے پاس جدید ترین اسلحہ بھی تھا حتیٰ کہ ٹینک بھی۔

الگ سے دس ہزار کی تعداد میں ایک بے قاعدہ فوج بھی تھی جو ہلکے ہتھیاروں سے لیس تھی۔پولیس اور کسٹم اہلکاروں کی تعداد بھی دس ہزار تھی جن کے پاس جدید رائفلیں اور سٹین گنیں تھیں۔رضاکار فوج کی تعداد دو لاکھ تھی جن میں سے 20 فیصد کے پاس جدید گنیں،رائفلیں اور پستول تھے۔ باقیوں کے پاس نیزے،تلواریں اور میزائل لوڈڈ گنیں تھیں۔“
نظام کی فوج اور رضاکاروں کی استعداد کے بارے میں جنرل چودھری نے لکھا”اگرچہ وہ تعداد میں زیادہ تھے تاہم جدید جنگی فن کے اعتبار سے تربیت یافتہ نہیں تھے۔

11 ستمبر 1948ء کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے انتقال پر پوری ریاست حیدرآباد میں سوگ کی کیفیت تھی۔حیدرآباد کے مسلمانوں کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ انھیں اپنے ہزاروں پیاروں کے قتل کا سوگ بھی منانا پڑے گا۔بھارت کی طرف سے نظام حیدرآباد کی عسکری قوت کا جو پراپیگنڈہ کیا گیا تھا،اس کی حقیقت اس وقت کھل گئی جب بھارتی فوج نے ریاست پر چڑھائی کی اور اسے کہیں سے بھی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔

یوں 13 ستمبر 1948ء کو شروع ہونے والا آپریشن پانچ دن بعد 18 ستمبر کو ختم ہو گیا اور ریاست پر بھارتی پرچم لہرا دیا گیا۔بعض مورخین کہتے ہیں کہ آپریشن تین دن میں ختم ہو گیا تھا۔بھارتی جریدے ”انڈیا ٹوڈے“ نے اعتراف کیا کہ یہ ظلم زیادہ تر مسلمانوں کے ساتھ ہوا۔جریدہ لکھتا ہے کہ بھارتی حکومت نے اس دوران اپنی آنکھیں بند رکھیں۔
محقق پانڈو رنگا ریڈی کے مطابق زیادہ تر لوٹ مار مسلمان تاجروں کی ہوئی،بعد ازاں انھیں قتل کر دیا گیا۔

پانڈو نے ہی نہرو میموریل میوزیم اور لائبریری (تین مورتی،نئی دہلی) سے درخواست کی کہ وہ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت سندر لال رپورٹ دیکھنے کا موقع فراہم کرے۔لائبریری والوں نے کئی مہینوں تک اس درخواست کو فائلوں میں دبائے رکھا بعد ازاں پانڈو سے کہا کہ رپورٹ لائبریری میں موجود نہیں ہے۔تاہم جولائی میں ایک مورخ ایم ڈی سیف اللہ نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اس کی ایک نقل حاصل کر ہی لی ہے ۔

اس کے اوپر ”کانفیڈینشل“ لکھا ہوا تھا۔اس کے ایک باب میں لکھا گیا تھا”ہم انتہائی محتاط اندازے کے مطابق کہہ سکتے ہیں کہ اس کارروائی کے دوران پوری ریاست میں ستائیس ہزار سے چالیس ہزار لوگوں کو قتل کیا گیا۔اس قتل عام کے بعد وزیراعظم نہرو نے ایک ٹیم تشکیل دی جس میں مختلف مذاہب کے افراد شامل تھے کہ وہ حیدرآباد جائیں اور تحقیقات کریں۔

اس ٹیم کی قیادت کانگریس کے سینئر رکن پنڈت سندر لال نے کی۔اس ٹیم نے ریاست میں واقع کئی دیہات کا دورہ کیا،لیکن ان کی مرتبہ رپورٹ کبھی منظرِ عام پر نہیں آئی۔ٹیم کے ارکان نے ہر گاؤں میں بچ جانے والے مسلمانوں پر کی گئی زیادتی کے احوال ریکارڈ کرتے ہوئے لکھا کہ ہمیں بھارتی حکومت نے ریاست حیدرآباد میں ایک خیر سگالی دورے پر بھیجا۔ہم اپنا ٹاسک پورا کرنے کے بعد اب اپنی رپورٹ جمع کرا رہے ہیں۔

وفد جس میں سینئر کانگریسی رہنما پنڈت سندر لال،نیشنلسٹ رہنما قاضی عبدالغفار اور مولانا عبداللہ مصری شامل تھے،29 نومبر کو حیدرآباد اور 21 دسمبر 1948ء کو واپس دہلی پہنچا۔فوجی حکومت کو ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ حکومتی پالیسی نافذ کرے۔ہم نے اپنی پوزیشن واضح کی کہ ہم وہ کمیشن نہیں ہیں کہ جو پولیس ایکشن سے پہلے اور بعد کے واقعات کی تفتیش کرے لیکن ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ دورے کے دوران جو ہم نے دیکھا”جو ہے اور جیسے ہے“ کی بنیاد پر رپورٹ میں شامل کریں۔


ریاست حیدرآباد کے 16 اضلاع ہیں،جن میں 22000 دیہات ہیں۔ان میں سے صرف تین اضلاع تھے جو فسادات اور ان کے برے اثرات سے محفوظ رہے۔چار اضلاع ایسے تھے جہاں حالات بہت خراب ہوئے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا جو آٹھ اضلاع میں ہوا۔عثمان آباد،گلبرگا،بدار اور نندید ایسے اضلاع تھے جہاں سب سے زیادہ نقصان ہوا۔ان چاروں اضلاع میں ہلاک ہونے والے مسلمانوں کی تعداد کم از کم 18 ہزار تھی۔

باقی چار اضلاع اورنگ آباد،بیر،نالگندا اور میداک میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کم از کم 5 ہزار تھی۔اس پوری ریاست میں 27 سے 40 ہزار مسلمانوں کو پولیس ایکشن کے دوران یا بعد میں ہلاک کیا گیا اورنگ آباد،بیر،نالگندا اور میداک ایسے اضلاع تھے جو نظام حیدرآباد کے رضاکاروں کے گڑھ تھے۔قتل عام کا سلسلہ قریباً بیس روز تک جاری رہا۔یہاں کی 10 ہزار آبادی میں سے صرف تین ہزار باقی بچی تھی۔

قریباً ایک ہزار کا قتل عام ہوا جب کہ باقی لوگ جان بچا کر بھاگ گئے۔ان کے کاروبار مکمل طور پر تباہ و برباد ہو گئے۔قتل عام کرنے والوں نے عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں بخشا۔شوار پور کے ایک کنویں سے چالیس بچوں کی لاشیں برآمد ہوئیں جن بچوں کو قتل نہیں کیا گیا،انھیں مجبور کیا گیا کہ وہ دیکھیں کیسے ان کے پیاروں کو قتل کیا جا رہا ہے۔عورتوں کو ریپ کا نشانہ بنایا جبکہ ان کی ایک بڑی تعداد کو اغوا کرکے شولا پور اور ناگپور لے جایا گیا،جن میں سے ایک بڑی تعداد نے خودکشی کر لی تھی۔


اس کے علاوہ لوٹ مار بھی کی گئی، گھروں کو آگ لگا دی گئی،مساجد کو شہید کر دیا گیا،مسلمانوں کو زبردستی ہندو بننے پر مجبور کیا گیا۔لوگوں کو قتل کرکے ان کی جائیدادوں پر قبضے کئے گئے۔کروڑوں روپوں کی جائیداد لوٹی گئی یا تباہ و برباد کر دی گئی۔اس سب کچھ کا نشانہ وہ مسلمان تھے جو دیہاتی علاقوں کی بے بس اور بے سہارا اقلیت تھے۔ایسے شواہد اور گواہیاں ملیں کہ ایک ہندو تنظیم کے تربیت یافتہ مسلح افراد شولا پور اور دوسرے بھارتی شہروں سے یہاں آن پہنچے۔

ان کے علاوہ کمیونسٹ افراد نے بھی قتل عام میں پورا حصہ لیا۔کئی مواقع پر بھارتی فوج اور پولیس اہلکاروں نے بھی مسلمانوں سے زیادتی میں حصہ لیا۔کئی جگہوں پر فوجیوں نے مسلمانوں کی دکانیں اور مکانوں کو لوٹنے اور تباہ کرنے کے لئے ہندوؤں کی حوصلہ افزائی کی۔ حتیٰ کہ بعض مقامات پر فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے ہندوؤں کو قتل و غارت گری اور لوٹ مار کے لئے مجبور بھی کیا۔

ایک ضلعی ہیڈ کوارٹر میں انتظامیہ کا سربراہ جو بذات خود ہندو تھا،نے بھی بتایا کہ فوج نے خود بھی مسلمانوں کی دکانوں کو لوٹا تھا۔بہت سی جگہوں سے یہ شکایات سننے کو ملیں کہ فوجیوں نے نقدی،سونا اور چاندی خود رکھ لیا جبکہ گھروں کا باقی سامان عام ہندو بلوائیوں میں تقسیم کر دیا۔14 سے 15 ستمبر تک یہاں شدید بارش ہوئی جس کی وجہ سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کی یوں جانیں بچ گئیں کہ وہ جنگلوں میں چھپے ہوئے تھے۔

بھارتی فوجیوں کی گاڑیاں بارش کے پانی اور کیچڑ کی وجہ سے ان جنگلوں میں گھس نہ سکی تھیں۔خفیہ سندر لال رپورٹ میں ہندوؤں کی جانب سے کی گئی بہیمانہ کارروائیوں کا احوال بھی درج کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ’ ’کئی علاقوں میں ہمیں کنویں دکھائے گئے جو اس وقت بھی لاشوں سے بھرے پڑے تھے۔ایک جگہ ہم نے گیارہ لاشیں گنیں جن میں ایک بچہ ایک عورت کی چھاتی کے ساتھ چمٹا ہوا تھا۔

“رپورٹ میں کہا گیا ہے”ہم نے کھڈوں میں لاشیں پڑی دیکھیں۔ کئی جگہوں پر مسلمانوں کی لاشوں کو آگ لگائی گئی تھی اور ہم جلی ہوئی لاشیں اور کھوپڑیاں دیکھ سکتے تھے۔“ان میں سے بڑی تعداد میں لوگوں کو ذبح کیا گیا۔جارح بھارتی فوج نے مسلمانوں سے ہتھیار چھین کر یہاں کی ہندو آبادی کو فراہم کئے جنہوں نے بھارتی فوج کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے قتل عام میں کردار ادا کیا۔

انھوں نے بھارتی فوجیوں کے ایماء پر لوٹ مار میں بھی خوب حصہ لیا۔اسی دوران نظام حیدرآباد نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا،تاہم عالمی ادارے نے اس کا نوٹس لینے سے انکار کر دیا۔یوں مسئلہ آج بھی انصاف کا طلبگار ہے۔تاہم کنیہا لال مانک لال منشی (کے ایم منشی) ریاست حیدرآباد میں بھارتی حکومت کے ایجنٹ جنرل تھے،انھوں نے اپنی یادداشتوں میں بھی 1948ء کے اس قتل عام کا کہیں ذکر نہیں کیا۔کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسٹ) کے رہنما پی سندرایا نے بھی تلنگانہ کے لوگوں کی جدوجہد پر ایک کتاب لکھی لیکن انھوں نے مسلمانوں کی مشکلات کا ذکر کیا لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں لکھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Operation Polo is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 October 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.