امریکہ و برطانیہ چین کیخلاف بر سر پیکار

بحری جنگی بیڑوں کی مشرق وسطیٰ میں گونج تیسری عالمی جنگ کو کھلی دعوت دینے کے مترادف ہے

جمعرات 17 جون 2021

America O UK China Ke Khilaf Barsare Paikar
محمد بن رمضان
اس صدی کی نئی معاشی جنگ چین اور امریکہ میں شروع ہو چکی ہے۔دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے مابین مسابقت نے پچھلے کچھ عرصے میں شدت اختیار کر لی ہے۔ممکن ہے دونوں ملک ان معاملات کے کسی نتیجہ خیز حل تک پہنچ جائیں۔دونوں ممالک اکیسویں صدی میں معاشی بالادستی کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔

دونوں میں سے کوئی بھی اس معاشی جنگ کو سرسری انداز میں نہیں لے گا۔گزشتہ دہائیوں میں امریکہ نے خود کو دنیا کی واحد حربی اور معاشی طاقت کے طور پر منوا لیا تھا لیکن چین کے معاشی ابھار نے امریکہ کی اس حیثیت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔چین کی جانب سے لاحق اس خطرے کے سدباب کیلئے واشنگٹن کے پاس سب سے بڑا آپشن یہ ہے کہ وہ ملک کی تجارتی اور سرمایہ کارانہ سرگرمیوں پر کچھ پابندیاں عائد کر دے۔

(جاری ہے)

امریکہ اور چین کے مابین یہ تصادم اسی وقت ناگزیر ہو گیا تھا جب 2001ء میں چین نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شمولیت اختیار کی تھی۔چین کو اس آرگنائزیشن میں لانے والا امریکہ ہی تھا۔تب اس کا خیال تھا کہ نتیجے میں اس کے ہاں نئی نوکریوں کے مواقع پیدا ہوں گے اور برآمدات بڑھیں گی۔ایسا ہوا بھی۔لیکن امریکی معیشت کو اس کی قیمت بھی چکانی پڑی۔آنے والے ماہ و سال میں ممکن ہے امریکہ پر یہ حقیقت آشکار ہو کہ گزشتہ 30 برسوں میں یہ اس کی سب سے بڑی غلطی تھی۔

تقریباً سبھی ممالک نے چینی معیشت کی تیزی سے بڑھوتری کو محسوس کیا’جو ایک سٹریٹیجک تشویش کا باعث بھی بن رہی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ جارج ڈبلیو بش نے صدر بننے کے بعد پہلے آٹھ ماہ میں امریکی پالیسی کا رخ ایشیا پیسیفک کی طرف موڑنا شروع کر دیا تھا‘ لیکن نائن الیون نے امریکی توجہ کسی اور جانب مرتکز کر دی۔امریکہ نے جو بھی ردعمل ظاہر کیا‘اس سے چین کے ترقی کرنے کی رفتار میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔

حقیقت یہ ہے کہ چین ہمیشہ ایشیا پیسیفک ریجن کی ایک بڑی معاشی اور فوجی طاقت رہا۔نیدر لینڈ کی گرونجن یونیورسٹی میں میڈیسن ہسٹاریکل سٹیٹسٹکس پروجیکٹ کے تحت ہونے والی ریسرچ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ چین 200 سال پہلے بھی عالمی معیشت کے ایک تہائی کا مالک تھا۔بعد ازاں یورپ اور امریکہ میں انڈسٹری اور سامراجیت کے فروغ نے چین کی اس حصہ داری کو کم کر دیا۔

پھر 1978ء میں چینی رہنما‘ڈنگ شاؤپنگ نے معاشی اصلاحات شروع کیں‘جن کے نتیجے میں آج چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہے،اگرچہ بہت سی کمرشل اور ملٹری ٹیکنالوجیز میں امریکہ کو تاحال چین پر برتری حاصل ہے‘لیکن یہ فرق تیزی سے کم ہو رہا ہے۔چین کا ”میڈان چائنا 2025ء “ پلان خصوصی طور پر واشنگٹن کیلئے فکر مندی کا باعث ہے کیونکہ اس منصوبے کا مقصد جدید ترین ٹیکنالوجیز‘جیسے روبوٹکس اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس‘کے میدان میں چین کو ‘امریکہ پر سبقت دلانا ہے۔

یہ کامیابی حاصل کرنے کے بعد چین معاشی میدان میں امریکہ کا ایک حقیقت اور ناگزیر حریف بن جائے گا،چنانچہ ان ساری باتوں اور معاملات کو سامنے رکھا جائے تو دونوں ملکوں کے درمیان چھڑنے والی اقتصادی جنگ‘کوئی حیران کن معاملہ نہیں رہتی۔
پچھلے کچھ برسوں سے امریکہ اور چین کے مابین تعلقات میں مسلسل کشیدگی آئی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ماضی میں اتنے بُرے تعلقات کبھی نہیں تھے اور ممکن ہے کہ ان میں مزید خرابی ہو۔

امریکی قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے پر تقرری سے قبل،سلیوان نے بائیڈن کے اعلیٰ ایشیائی مشیر کرٹ کیمبل کے ساتھ،امور خارجہ کے میگزین کے لئے ایک مضمون لکھا،جس میں انھوں نے کہا کہ اب چین کے ساتھ مذاکرات کا دور اب مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے۔اور اب صورتحال کچھ یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ امریکہ اور چین کے تعلقات کو نئی سرد جنگ کے طور پر دیکھا جاتا ہے،جو کہ نصف صدی قبل امریکہ اور روس کے درمیان کشیدہ تعلقات کے حوالے سے ہے اور جس نے بیسویں صدی کی آخری پانچ دہاہیوں میں عالمی تعلقات میں ایک بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔

واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تعلقات کو کیسے پہچانا جا سکتا ہے،پوچھے گئے سوالات اور ان کے دیے گئے جوابات پر بڑی حد تک منحصر ہے۔یہ پالیسی کے اختیارات کا معیار طے کرتا ہے،کچھ راستوں کو محدود اور کچھ راستے بند کر دیتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اختیارات پر تبادلہ خیال کرنے،سیاق و سباق کو سمجھنے اور صورتحال کو واضح کرنے کے لئے کئی بار تاریخی حوالہ جات مددگار ثابت ہوتے ہیں،لیکن دوسرے یہ بھی استدلال کرتے ہیں کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔

متعدد بار تاریخ خود کو دہرا نہیں دیتی اور اختلافات باہمی مساوات سے بڑھ سکتے ہیں۔
اگر سرد جنگ دو طاقتور ممالک،دو مختلف سیاسی نظاموں کے مابین تنازع کی نمائندگی کرتی ہے،تو پھر امریکہ اور چین کے مابین ’دشمنی‘میں امریکہ اور سوویت یونین کے تصادم کی گونج سنائی دیتی ہے۔جوبائیڈن انتظامیہ کا کلیدی نقطہ یہ ہے کہ اگر ضرورت ہو تو چین کو چیلنج کرنا اور جہاں بھی ممکن ہو تعاون کرنا۔

بیجنگ انتظامیہ امریکی نظام کی خامیوں سے فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتی ہے۔سرد جنگ کے دوران سویت یونین اور اس کے اتحادیوں کو عالمی معیشت سے منقطع کر دیا گیا تھا اور برآمدات پر پابندی عائد تھی۔دوسری طرف چین عالمی معیشت کا محور بنی ہوئی ہے اور اس کی اپنی معیشت بڑی حد تک امریکی معیشت سے منسلک ہے۔امریکی اور سوویت یونین کی سرد جنگ کا تکنیکی پہلو بہت اہم تھا۔

پہلے ہتھیاروں کا مقابلہ تھا اور بعد میں خلا میں داخل ہونے کی دوڑ تھی۔اس بار امریکہ اور چین کی نئی سرد جنگ میں ٹیکنالوجی کا پہلو اہم ہے لیکن مقابلہ مصنوعی ذہانت اور فائیو جی ٹیکنالوجی کے بارے میں ہے۔سرد جنگ کے وقت،دنیا دو دھڑوں میں بٹ گئی تھی۔حالانکہ کچھ اہم ممالک میں ایک غیر جانبدار گروہ بھی تھا (مغربی دنیا میں وہ سوویت نواز کے حامی سمجھے جاتے تھے) لیکن اس وقت عالمی حالات ویسے نہیں ہیں۔

اس وقت دنیا بھر میں لبرل نظام حکومت بہت دشواری سے گزر رہا ہے اور یہ صورتحال چین کو موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے نظام حکومت کے ماڈل کو دنیا بھر میں پھیلائیں اور اثر و رسوخ حاصل کریں۔
سرد جنگ کا ماڈل اصلی معنوں میں بہت موٴثر ہے۔سرد جنگ ایک سیاسی جدوجہد تھی جس میں دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے قانونی جواز کو مسترد کر دیا تھا۔اگرچہ سرد جنگ کے دوران امریکہ اور سوویت یونین کے مابین کوئی حقیقی تھا لیکن بالواسطہ تنازع میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھی۔

اس وجہ سے بہت سارے خدشات ہیں کہ امریکہ اور چین کے مابین تنازع کے دوران جنونی نظریہ کے بارے میں دونوں اطراف میں غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے اور چین کسی ممکنہ شکست کے خطرے سے بچنے کے لئے کسی حد تک جا سکتا ہے۔تاہم،چین سوویت یونین سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔سوویت یونین اپنے دور عہد میں ہی امریکی جی ڈی پی کے +40 تک پہنچنے میں کامیاب رہا تھا۔

اسی کے ساتھ ہی چین نے جی ڈی پی کو اتنی ترقی دے دی ہے جتنی چند دہائیوں میں امریکہ نے کی۔چین ان حریفوں میں سب سے زیادہ طاقتور ہے جن کا مقابلہ امریکہ نے انیسویں صدی میں کیا ہے۔آنے والی دہائیوں میں،یہ دونوں ایک دوسرے کی طرف ایک ہی پوزیشن پر رہیں گے۔
بیجنگ انتظامیہ نے واشنگٹن انتظامیہ پر متعدد طریقوں سے برتری حاصل کی ہے۔چین کے بہت سے مضبوط رخ اور بہت سی کمزوریاں ہیں۔

امریکہ میں بھی بہت سی کمزوریاں ہیں،لیکن ایک بہت بڑا متحرک معاشرہ ہے جو اپنے آپ کو نئے سرے سے تلاش کرنے کے قابل ہے لیکن کووڈ 19 کی وبا نے یہ ظاہر کیا ہے کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ چین میں جو کچھ ہوتا ہے وہ صرف چین ہی میں نہیں ہوتا۔چین ایک عالمی طاقت ہے اور وہاں کا معاملہ پوری دنیا کو متاثر کرتا ہے۔اس تناظر میں،دنیا کو تیار رہنا چاہیے،امریکہ اور چین تعلقات میں اتار چڑھاؤ کا راستہ ہے اور اس کا آغاز ہوا ہے۔

امریکہ میں اقتدار کی منتقلی کے بعد کئی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ چین کے ساتھ اس کی کشیدگی میں جو صدر ٹرمپ کی صدارت کے دوران زیادہ تر تجارتی معاملات کی وجہ سے رہی واضح کمی آئے گی۔لیکن چند شواہد اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ تعلقات میں مزید کشیدگی کا امکان موجود ہے۔اس سے ایشیا اور برصغیر شاید ایک نیا سیاسی اور اقتصادی میدان جنگ بننے جا رہے ہیں۔


اس بات کا عندیہ صدر جوبائیڈن نے اپنی انتخابی مہم میں کافی غیر مبہم الفاظ میں دیا تھا۔وہ پچھلے سال انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ کے بارے میں یہ کہتے رہے کہ وہ چین کے معاملے میں کافی کمزور ہیں اور اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔اس سلسلے میں وہ صدر ٹرمپ کی کرونا (کورونا) وائرس کے بارے میں چینی یقین دہائیوں پر یقین کرنے کو ان کی کمزوری سے تعبیر کرتے رہے۔

کشیدگی میں اضافے کا پہلا اشارہ صدر بائیڈن کا اپنی خارجہ پالیسی چلانے والے اہلکاروں کے انتخاب سے ملتا ہے جو چین کے بارے میں جارحانہ خیالات رکھتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ پچھلے چار سالوں کی پالیسیوں سے امریکہ چین کے مقابلے میں کافی کمزور ہو چکا ہے اور امریکہ کو اپنے آپ کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

قومی سلامتی کے مشیر جیک سلون بھی اس قسم کے خیالات رکھتے ہیں اور ان کی نظر میں چین عالمی،برتری اور غلبے کی کوششوں میں مصروف ہے۔کچھ دوسرے مشیر یہ سمجھتے ہیں کہ اس چینی برتری اور غلبے کی کوشش کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ امریکی فوجی قوت کو اتنا بڑھایا جائے کہ اس میں بحیرہ جنوبی چین میں چینی جنگی جہازوں،آبدوزوں اور دیگر فوجی تنصیبات کو 72 گھنٹوں کے اندر ختم کرنے کی صلاحیت ہو۔

ان اہلکاروں کے یہ خیالات علاقائی امن کے لئے کافی خطرناک ہیں۔
یہ اس وقت اور بھی خطرناک ہو جاتے ہیں جب اس جارحانہ طرز عمل کا اظہار کرنے والے صدر ٹرمپ جیسی غیر ملکیوں سے نفرت کی سوچ نہ رکھتے ہوں اور قومی دھارے میں بھی شامل ہوں۔اس سے یہ خدشہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کی سوچ رکھنے والے اہلکاروں کے خیالات پر مبنی جارحانہ پالیسی کو عوامی حمایت بھی حاصل ہو سکتی ہے۔

ان خیالات سے یہ آسانی سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان تجارت میں عدم توازن ان کے تعلقات کا صرف ایک پہلو ہے۔بائیڈن انتظامیہ کے خارجہ پالیسی چلانے والے اہلکار چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت اور علاقائی اثر و رسوخ سے زیادہ خوفزدہ ہیں اور اس کو کسی نہ کسی طریقے سے روکنے یا کم کرنے کی کوششیں کرتے رہیں گے۔امریکی سلامتی کے ادارے چین کے بحیرہ جنوبی چین میں فوجی طاقت میں اضافے،بی آر آئی پروجیکٹ اور علاقائی ممالک کو دوست بنانے کے لئے قرضوں کے فیاضانہ استعمال سے بھی بہت فکر مند ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ انہیں چین میں ہائی ٹیک انڈسٹری کا پھیلاؤ اور کامیابیاں بھی پریشان کیے ہوئے ہیں۔یہ چینی علاقائی حکمت عملی امریکہ کی عالمی بالادستی کو چیلنج کرتی ہے اور سلامتی کے ادارے اور بائیڈن انتظامیہ کے خارجہ پالیسی کے اہلکار اس کا بھرپور مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

America O UK China Ke Khilaf Barsare Paikar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 June 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.