کورونا وائرس کا بحران مودی کیلئے بھیانک خواب

چین اور روس کے ساتھ تاریخی معاہدوں سے پاکستان ایشین ٹائیگر بننے کے قریب پہنچ گیا

منگل 29 جون 2021

Coronavirus Ka Bohran
رمضان اصغر
پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سویلین اور فوجی وسائل نقل و حمل کے شعبے میں ہونے والی ترقی اور تیل کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی وجہ سے ایران اور خطہ بڑی طاقتوں کے درمیان مقابلے کا مرکزی نقطہ بنا رہا۔دوسری عالمی جنگ کے دوران روس،برطانیہ اور امریکہ نے نازی جرمنی کو تیل کی دولت سے مالا مال ایرانی علاقوں تک پہنچنے سے روکنے کی خاطر ایک محاذ تشکیل دیا تھا۔

اس اتحاد کے تین سرکردہ رہنما سٹالن، روزویلٹ اور ونسٹن چرچل جنگ کے دنوں میں بھی تہران کے اندر مذاکرات کی میز سجایا کرتے تھے۔ہٹلر کی شکست کے بعد روس نے ایران میں قدم جما لیے اور تہران کے ساتھ پیٹرولیم کے متعدد معاہدوں پر دستخط کیے۔

(جاری ہے)

بعد ازاں واشنگٹن اور لندن نے ماسکو۔تہران معاہدے ختم کروا کر روس کو خطے سے بے دخل کرایا۔برطانیہ اور امریکہ کو دس برس بعد احساس ہوا کہ انتخابی عمل کے نتیجے میں ڈاکٹر مصدق کا ایرانی حکومت کی سربراہی تک پہنچنا دراصل بائیں بازو اور اس وقت کے سوویت یونین کے دوبارہ تہران داخلے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔

اسی خدشے کی بنا پر ڈاکٹر مصدق کا تختہ الٹ دیا گیا تاکہ وہاں بادشاہت کو تحفظ دیا جا سکے۔امریکہ کو سوویت یونین کی نیت پر اس وقت مزید شک گزرا جب کریملن نے ایران کے ہمسایہ ملک افغانستان پر دسمبر 1979ء میں حملہ کیا۔حملہ ایران میں رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت کے خاتمے کے 10 ماہ بعد کیا گیا۔
صورت حال دیکھ کر امریکہ،افغانوں کی مدد سے سوویت یونین روس کا راستہ روکنے سات سمندر پار سے دوڑا چلا آیا۔

واشنگٹن کی سوچی سمجھی رائے تھی کہ سوویت یونین،ایران پر تسلط جمانا چاہتا ہے کیونکہ گرم پانیوں اور تیل کی دولت تک رسائی کا خواب لے کر سفید ریچھ خطے پر حملہ آور ہو چکا تھا۔یہ پہلا موقع تھا جب چینیوں نے مشرق وسطیٰ،بالخصوص مغربی ایشیا اور مشرقی افریقہ،تک پاؤں پھیلانے میں دلچسپی کا اظہار کیا۔اپنی اس رغبت کو انھوں نے بھرپور اقتصادی تعاون کی حکمت عملی کا نام دیا،جسے آج ہم‘روڈ اینڈ بیلٹ‘منصوبے کے طور پر جانتے ہیں۔

چین کا ایران سے جامع اسٹریٹجک معاہدہ راتوں رات طے نہیں پایا۔چینی صدر کے 2016ء میں دورہ تہران کے دوران اس پر مذاکرات کا آغاز اور پھر اسے امریکی میڈیا کے ذریعے مشتہر کیا گیا۔معاہدے پر دستخط کے لئے دونوں ملکوں نے جس وقت کا انتخاب کیا گیا ہے اس نے بہت سے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔خفیہ معاہدے کی اب تک سامنے آنے والی تفصیل اس بات کی چغلی کھا رہی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعاون کی آڑ میں ہونے والی ’ڈیل‘ سے بہت بڑے مقاصد حاصل کرنا مقصود ہیں جنہیں کسی مصلحت کی بنا پر ابھی سامنے نہیں لایا جا رہا۔

معاہدے پر دستخط دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کی نصف سنچری مکمل ہونے پر ہونا اپنی جگہ اہم ہے۔ چین،ایران کا پرانا اتحادی اور تجارتی شریک ہے۔ایک اندازے کے مطابق حالیہ چند برسوں کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ تجارت کا حجم 20 ارب ڈالر تھا جبکہ 2016ء میں تہران اور بیجنگ نے دس برسوں کے دوران تجارت کو دس گنا بڑھا کر 600 ارب ڈالر تک لے جانے پر اتفاق کیا۔

عجیب اتفاق ہے کہ واشنگٹن کے دونوں ملکوں کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں اور امریکہ نے ان پر کڑی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔
چین کے مخالفین کا کہنا ہے کہ باہمی تعاون کے اس معاہدے کے ذریعے بیجنگ،مشرق وسطیٰ میں اپنا رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔چین کہتا ہے کہ’ ’تعاون کے معاہدے کا مقصد کسی تیسرے فریق یا ملک کو نشانہ بنانا نہیں۔“چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ڑھولچیان کے بقول’ ’تعاون کے منصوبے کا مقصد دونوں ملکوں کے عوامی سطح پر روابطہ کو مضبوط بنانا ہے تاکہ مستقبل کا وسیع البنیاد فریم ورک تیار کیا جائے۔

“ایران میں چین کے وسیع البنیاد معاشی تعاون کے تناظر میں پاکستان کے ساتھ چین کی اقتصادی راہ داری منصوبے پیک کی مالیت جامع اسٹریٹجک معاہدے کے اقتصادی حجم سے بہت کم ہے۔تاہم پاک۔چین تعاون اور دوستی کے شاندار ماضی کے جلواس تفادت پر ملک میں تنقید کم ہی دیکھنے میں آئی ہے۔دوسری جانب بھارت ایران۔چین معاہدے پر اس لئے پریشان دکھائی دیتا ہے کہ اس نے امریکی دباؤ میں آکر ایران گیس پائپ لائن منصوبہ سے علیحدگی اختیار کرکے سونے کی چڑیا ہاتھ سے گنوا دی اور اب کف افسوس ملنے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں۔

امریکی پابندیوں کی وجہ سے بھارت،ایران سے تیل کی درآمد تقریباً ختم کر چکا ہے جب کہ چند سال قبل تک وہ بھارت کو تیل فراہم کرنے والا اہم ملک تھا۔اس کے علاوہ ایران میں چینی سرمایہ کاری کے نقصان کا بھی بھارت کو سامنا ہو گا۔بھارت،ایران میں چابہار بندرگاہ کو فروغ دینا چاہتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ پاکستان میں واقع گوادر بندرگاہ کا جواب ہے۔

چابہار تجارتی اور اسٹریٹجک لحاظ سے بھارت کے لئے بھی اہم ہے۔
معاہدے کے مطابق چین،ایران کی فوجی اور سکیورٹی صلاحیت میں اضافے کے لئے تعاون فراہم کرنے کا پابند ہے۔یہ معاہدہ،چین کو ایرانی علاقے میں 5000 سکیورٹی اور فوجی اہلکار تعینات کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔اس بات سے قطع نظر کہ خطے کے کئی ملک تہران کی مسلح مہم جوئی کے شاکی ہیں۔

چینی فوجی اہلکاروں کی ایران میں تعیناتی خطے کے لئے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ایران اس وقت عراق،شام،لبنان،غزہ اور یمن میں پانچ جنگیں لڑ رہا ہے۔پاک چین تاریخی دفاعی معاہدے نے دشمنوں کے ہوش اڑا دیے، پاکستان اور چین دونوں میں سے کسی بھی ملک کو خطرہ ہونے کی صورت میں دونوں ممالک کی فضائیہ مل کر مقابلہ کریں گی۔پاکستان اور چین کی فضائیہ کے درمیان ایک نئی کو آپریشن کی بنیاد رکھی گئی ہے۔

فیصلہ کیا گیا ہے کہ دونوں ممالک کی فضائیہ خطے کے مقامی اور بین الاقوامی چیلنجز کا مل کر مقابلہ کریں گے۔دونوں ممالک کا تاریخی دفاعی معاہدہ ہوا ہے کہ اگر پاکستان کو کوئی خطرہ ہوا تو چین پاکستان کی فضائیہ کا ساتھ دے گا جبکہ اگر چین کو کوئی خطرہ ہوا تو پاکستان کی فضائیہ چین کا ساتھ دے گی۔
خطے میں امن و استحکام کو برقرار رکھنے اور مشترکہ چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لئے دونوں ممالک اور ان کی مسلح افواج کا باہمی تعاون وقت کی اہم ضرورت ہے۔

یہ امر قابل ستائش ہے کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ پاک چین دوستی مزید مستحکم ہوتی جا رہی ہے۔روس کے ساتھ بھی پاکستان کی دوستی کی وجہ سے بھارت کافی پریشان ہے۔چند ماہ پہلے روس سے 64 رکنی خصوصی وفد پاکستان پہنچا جس کا بنیادی مقصد پاکستان میں تین شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا تھا۔جس میں دفاع،پٹرولیم،اور گیس کے شعبے شامل ہیں۔روس پاکستان کے ٹینک الخالد کی تیاری اور اس ٹینک کو جدید بنانے میں پاک فوج کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔

پاکستان 2023ء تک الخالد ٹینک تیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔جس کی تیاری میں اب روس پاکستان کی مدد کرے گا۔
آسٹریلیا کے ایک اخبار نے یہ شائع کیا کہ ناقدین کا کہنا ہے کہ غرور،انتہا سے زیادہ قوم پرستی اور بیوروکریسی کی ناکامی نے مل کر انڈیا میں ایک بحران کو جنم دیا،جہاں ہجوم اور جلسوں کے دلدادہ وزیراعظم تو مزے میں ہیں مگر عوام کا صحیح معنوں میں دم گھٹ رہا ہے۔

اگرچہ اس ساری صورتحال میں حکومت تنقید کی زد میں تو ہے ہی مگر ساتھ ساتھ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ وزیراعظم مودی کی بھی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔انڈیا میں کورونا وائرس کی دوسری لہر سے متعلق کہانیاں بین الاقوامی اور سوشل میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔لوگ زندہ رہنے کے لئے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔وہ انتہائی نگہداشت والے بیڈز اور علاج کے منتظر ہیں۔

مدد کے طلبگار خاندان ہر چیز کے لئے مشقت کر رہے ہیں۔آکسیجن سلنڈر سے لے کر ڈاکٹر سے وقت حاصل کرنے تک،اسی طرح کورونا وائرس سے مرنے والوں کے لئے اجتماعی چتاؤں کی تگ دو تک بھی کرنا اس میں شامل ہے۔دنیا بھر میں انڈیا کے اس بحران کی کوریج اس طرح ہو رہی ہے کہ سارا الزام وزیراعظم مودی پر عائد کیا جا رہا ہے،جو خود کو ایک ایسے شخص کے طور پر متعارف کراتے ہیں جیسے ایک بہت اچھے منتظم ہیں اور جو ہر چیز پر نظر رکھتے ہیں۔

اور اب اسی شخصیت کے ملک میں یومیہ سب سے زیادہ کورونا وائرس سے عوام متاثر ہو رہی ہے۔
وزیراعظم مودی نے ایک ہندو میلے کی اجازت دی جس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ مذہبی عقیدے کو پورا کرنے کی غرض سے دریائے گنگا کے کنارے کئی ہفتوں کے لئے جمع ہوئے۔اس دوران زائرین پانی میں پاکی حاصل کرنے کے لئے کچھ وقت دریا کے پانی میں رہتے ہیں وزیراعظم مودی مغربی بنگال میں انتخابات کے لئے اصرار کرتے رہے اور بغیر ماسک کے ہی پانی مہم چلائی اور بڑی عوامی ریلیوں میں شرکت کی،جہاں ہر طرف انسانی سر ہی نظر آتے تھے ۔

نریندر مودی کی مقبول عوامی رہنما اور ایک چاک و چوبند ایڈمنسٹریٹر کی شہرت کا زوال 2017ء سے شروع ہو گیا جب انڈیا میں کرنسی بحران نے جنم لیا کیونکہ مودی حکومت نے پانچ سو اور ہزار روپے کے نوٹوں کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کے بعد سے ملک میں کرنسی کا بحران پیدا ہو گیا تھا۔گزشتہ برس نریندر مودی نے کورونا وائرس کی وبا کو روکنے کے لئے راتوں رات پورے انڈیا کو بند کر دیا مگر اس کے باوجود لاکھوں لوگوں کو اپنی ملازمت اور جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔

ان سب فیصلوں کی وجہ سے انڈیا کی معیشت پر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔اس سارے معاملے پر وزیراعظم مودی کا جواب یہی تھا کہ عوام کی بہتری کا سوال تھا چاہے یہ غیر قانونی کرنسی نوٹوں کا خاتمہ ہو یا کورونا کو شکست دینی ہو۔2012ء میں ہی ٹرین میں آگ لگنے سے 60 ہندو ہلاک ہوئے جس کے بعد گجرات میں ہندو مسلم فسادات شروع ہوئے جن میں ہزار سے زیادہ مسلمان قتل ہوئے۔

اس وقت نریندر مودی پر یہ الزام لگا تھا کہ انھوں نے اس ریاست کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے ان فسادات کی حوصلہ افزائی کی۔نریندر مودی نے ان الزامات کی تردید کی اور اس بحران سے بھی باہر نکل آئے۔اپنے حامیوں کے لئے 2012ء میں نریندر مودی گڈ گورننس اور موٴثر ایڈمنسٹریشن کی علامت بن چکے تھے۔ کہیں کہیں اٹھیں مطلق العنان رہنما اور غریبوں کا نمائندہ کہا گیا تاہم ان کے دور میں گجرات میں خوب ترقی ہوئی اور کاروباری سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Coronavirus Ka Bohran is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 June 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.