پانی‘توانائی کا بحران اور بھارت کی آبی جارحیت

پاکستان میں ایتھوپیا اور صومالیہ جیسے حالات سے بچنے کیلئے ڈیموں کی تعمیر فوری کی جائے

پیر 13 ستمبر 2021

Paani Tawanai Ka Bohran Aur Bharat Ki Aabi Jarhiyat
سید طاہر عباس
بھارت پاکستان کو معاشی،عسکری،سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے کمزور مملکت بنانے کیلئے کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہا۔”بنیئے“ کی جانب سے آبی جارحیت کا سلسلہ مسلسل جاری ہے کہی بغیر وارننگ پانی چھوڑنے سے پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے تو کہی دریاؤں کی دھرتی صحراؤں میں تبدیل ہو رہی ہے۔

بھارت دریائے سندھ میں گرنے والے ندی نالوں پر بھی 14 چھوٹے ڈیم بنا رہا ہے،جہلم سے ایک اور بگلیہار سے 2 نہریں نکال کر راوی میں ڈالی جا رہی ہیں اور راوی کا پانی ستلج میں ڈال کر راجستھان لے جایا جا رہا ہے۔جہلم پر 12 اور چناب پر مزید 20 چھوٹے ڈیم بنائے جانے کے منصوبوں پر بھی کام جاری ہے اور یہ تمام آبی تجاوزات ان دریاؤں پر ہو رہی ہیں جو سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آتے ہیں۔

(جاری ہے)

وطن عزیز میں بڑھتا ہوا پانی اور توانائی کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔پانی کی کمی کی وجہ سے زیر کاشت رقبہ 22.3 ملین ہیکٹر سے کم ہو کر 21.2 ملین ہیکٹر رہ گیا ہے۔پانی کی کمی کا آغاز 1948ء سے ہوا اور تاحال جاری ہے۔قومی سطح پر اس وقت جتنے بھی بنیادی مسائل ہیں سب سے بڑا ایشو بھارت کی آبی جارحیت ہے۔
 1950ء میں پانی کی فی کس مقدار 5830 کیوبک میٹر تھی اب صرف ایک ہزار کیوبک میٹر ہے اور اندازہ یہی لگایا جا رہا ہے کہ 2025ء تک یہ صرف 550 کیوبک میٹر رہ جائے گی۔

پاکستان میں توانائی بحران سنگین صورت اختیار کر چکا ہے اور اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرنے والے روشنوں کے شہر کراچی میں حال ہی میں جو بجلی بحران پیدا ہوا اس سے ہزاروں افراد زندگی کی بازی ہار گئے ان دنوں ملک بھر میں پانی اور بجلی کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے لیکن تاحال اس بحران پر کنٹرول کرنے کیلئے حکومتی سطح پر محض زبانی جمع خرچ کے کوئی عملی اقدامات نہیں دئیے گئے۔

یاد رہے کہ اسی منفی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ستمبر 2020ء میں مودی نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا تھا کہ بھارت کے باسمتی چاول کو ”جغرافیائی شناخت“ سے نوازا جائے تاکہ پاکستان سے باسمتی چاول کی برآمد کو ضرب پہنچائی جا سکے۔مقام افسوس ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ادوار میں ایک طرف بعض پاکستانی سیاسی رہنماء اقتدار و ذاتی اناء کی خاطر پستی کی انتہاء تک پہنچ کر مادر وطن کا سودا کرتے رہے دوسری سمت مودی سرکار نے پوری قوت سے پاکستان کے خلاف ”ہائبرڈ جنگ“ چھیڑے رکھی۔


دنیا بھر میں چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعداد 10 لاکھ ہے جن میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 8300 ہزار کیوبک کلو میٹر ہے،جبکہ عالمی سطح پر دنیا کے کل ڈیموں کا 59.7 فیصد ایشیا میں ،21.1 فیصد شمالی امریکہ،12.6 فیصد یورپ،3.3 فیصد افریقہ،2 فیصد جنوبی افریقہ اور 1.3 فیصد آسٹریلیا میں ہیں۔50 ہزار ایسے بڑے ڈیم ہیں جن کی اونچائی 200 فٹ سے زائد ہے۔بڑے ڈیم رکھنے کے حوالے سے 19 ہزار ڈیمز کے ساتھ چین پہلے نمبر پر،8100 ڈیمز کے ساتھ امریکہ دوسرے اور بھارت 4 ہزار ڈیمز کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

بھارت کے پاس 1947ء میں صرف 300 ڈیمز تھے جن کی اس وقت تعداد 4 ہزار تک پہنچ چکی ہے اور ان ڈیمز کو 20 لاکھ 8 ہزار مربع کلو میٹر پر مشتمل زرعی زمین اور 37 ہزار 367 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے 36 پاور سٹیشن کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے لیکن ملکی زراعت، توانائی کے شعبے میں بحران اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے مسائل کے شکار پاکستان میں صرف 18 ڈیم ہیں،پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں 1974ء کے بعد کوئی ڈیم نہیں بنایا گیا،جو دنیا بھر کے 10 لاکھ ڈیمز کے سامنے اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہیں۔


ڈیموں کی تعمیر سے کوئی انکار نہیں کر سکتا اور موجودہ حالات میں تو ان کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے لیکن یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان ڈیموں کی تعمیر میں رکاوٹیں کیوں کھڑی کی جا رہی ہیں۔کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا باقاعدہ کام 1953ء میں شروع ہوا تھا، اس ڈیم کی خصوصیت یہ ہے کہ اس ڈیم میں دریائے سندھ کے علاوہ دریائے کابل،دریائے کنٹر،دریائے سوات،دریائے دیر اور دریائے سوان کا پانی بھی جمع ہو سکتا ہے کیونکہ کالا باغ کا علاقہ ہی وہ مناسب جگہ ہے جہاں ان دریاؤں کا اتصال ہوتا ہے۔

پانی کی عدم دستیابی کے باعث صوبہ بلوچستان،سندھ اور جنوبی پنجاب میں ہزاروں انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔لاکھوں افراد پانی کی کمی کے باعث نقل مکانی پر مجبور ہیں۔پانی کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش نظر عالمی سطح پر پانی کا اوسطاً ذخیرہ 40 فیصد،بھارت میں 54 فیصد ہے اور پاکستان میں صرف 9 فیصد ہے۔
پانی کی کمی کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہو رہی ہیں یہی صورتحال برقرار رہی تو خدانخواستہ خدشہ ہے کہ کہیں یہاں ایتھوپیا اور صومالیہ جیسے ہی حالات پیدا نہ ہو جائیں اور شمالی کوریا اور روانڈا کی طرح ہماری انتہائی زرخیز زرعی زمینیں اجاڑ، ویران اور بے آباد نہ ہو جائیں۔

بھارت کی طرف سے پاکستان آنے والے دریاؤں پر ڈیم بنانے اور ان دریاؤں میں پانی کا بہاؤ کنٹرول کرنے کے اقدامات پر ایکشن کیوں نہیں لیا جا رہا؟،ہماری قیادت نے خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے؟۔پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر اور پانی ذخیرہ کرنے کے انتظامات درست نہ ہونے کی وجہ سے اوسطاً سالانہ 20 ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع ہو جاتا ہے اور پانی کی کمی سے پاکستان میں ہر سال سینکڑوں ایکڑ پر مشتمل زمین پر کاشت نہیں کی جا سکتی۔چیف جسٹس آف پاکستان کا ڈیموں کی تعمیر کیلئے اُٹھایا گیا اقدام قابل تحسین ہے لہٰذا ضرورت اب اس امر کی ہے کہ بھارتی آبی جارحیت کا جواب دینے کیلئے پوری قوم یکجہتی کا مظاہرے کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Paani Tawanai Ka Bohran Aur Bharat Ki Aabi Jarhiyat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 September 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.