امریکہ کی گھڑی اور طالبان کا وقت

واشنگٹن نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں اربوں ڈالرز جھونک دئیے

جمعرات 1 جولائی 2021

America Ki Ghari Aur Taliban Ka Waqt
حنا انیس شاہد
جنوب امریکی علاقے کے ریڈ انڈین قبائل سے تعلق رکھنے والے ایک سردار نے کبھی کہا تھا کہ ”جب سفید آدمی پہلی بار ہماری سرزمین پر آیا تھا تو اس کے پاس بائبل تھی اور ہمارے پاس وافر رزق،قیمتی ہیرے جواہرات اور زرخیز اراضی تھی لیکن اب سفید آدمی کے پاس ہماری تمام وسیع و عریض زرخیز اراضی ہے جبکہ ہمارے پاس صرف بائبل رہ گئی ہے“۔

امریکیوں کے توسیع پسندانہ عزائم کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ریڈ انڈین قبیلہ کے سردار کے کہے گئے درج بالا جملہ پر ہزار بار تفکر اور تدبر کیا جائے بلاشبہ امریکہ ایک عالمی طاقت ہے لیکن اس کی بنیادوں میں بے شمار مظلوم ریڈ انڈین قبائل،محکوم اقوام اور غریب ممالک کا خون ناحق اور قیمتی وسائل کی چمک دمک شامل ہے،بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ امریکی اپنے آپ کو دنیا کی سب سے زیادہ تہذیب یافتہ اور جمہوری قوم سمجھتے ہیں اور تمدن و جمہوریت کا یہ ہی تحفہ وہ ہر قوم کو زبردستی دینا چاہتے ہیں لیکن اس کے عوض میں وہ مفتوح ملک کی عوام کے تمام وسائل کو اپنے تصرف میں لینا ہر گز نہیں بھولتے یقینا افغانستان میں بھی امریکہ افغان عوام کیلئے جمہوری نظام کا نام نہاد تحفہ لے کر ان کے انتہائی قیمتی اور قدرتی معدنی وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے ہی حملہ آور ہوا تھا اور کسی حد تک افغانستان کے معدنی وسائل اپنی عوام کی فلاح و بہبود کے لئے حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہا مگر یہاں کوہستانی مزاج کے حامل طالبان کی جانب سے ہونے والی 19 برس پر محیط طویل ترین مزاحمت نے امریکہ کو شدید جانی و مالی نقصانات سے دو چار کیا اگر یہ کہا جائے کہ امریکہ کو افغانستان میں معاشی فوائد سے کہیں زیادہ شدید ترین مالی خسارہ برداشت کرنا پڑا تو بے جا نہ ہو گا۔

(جاری ہے)


امریکی محکمہ دفاع کے مطابق افغانستان میں اکتوبر 2001ء سے ستمبر 2019ء تک مجموعی فوجی اخراجات 778 بلین ڈالر تھے اس کے علاوہ امریکی محکمہ خارجہ،امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی(یو ایس ایڈ) اور دیگر سرکاری ایجنسیوں نے تعمیر نو کے منصوبوں پر 44 ارب ڈالرز خرچ کئے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2001ء میں جنگ کے آغاز سے اب تک آنے والی مجموعی لاگت 822 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے لیکن اس میں پاکستان میں آنے والے اخراجات شامل نہیں جسے امریکہ افغان سے متعلقہ کارروائیوں کے لئے اپنے فوجی اڈے کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔


افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے ہلاکتوں کے اعداد و شمار ظاہر کرنے کا انتہائی غیر معمولی تھا کیونکہ امریکی اور افغان حکومتیں عام طور پر افغان ہلاکتوں کی تعداد شائع نہیں کرتی تھیں تاہم کچھ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں افغان سکیورٹی فورسز کی ہلاکتیں بہت زیادہ ہوئیں اور بعض اوقات ایک دن میں اوسطاً 30 سے 40 اموات ہوتی ہیں۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یوناما) کے مطابق جب سے اس نے 2009ء میں باقاعدگی سے شہری ہلاکتوں کا شمار رکھنا شروع کیا تھا تب سے ایک لاکھ سے زیادہ شہری ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔افغان سرزمین پر ہونے والے بے پناہ جانی و مالی نقصان نے ہی امریکی حکام کو افغانستان سے امریکی افواج کے جلد از جلد انخلاء کا کڑوا گھونٹ بھرنے پر مجبور کیا ہے لیکن سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ غیر ملکی فوجیوں کی واپسی کے بعد افغانستان میں تقریباً طاقت کا توازن طالبان کے پلڑے میں آجائے گا مگر ایسے میں یہ مسئلہ بھی ہے کہ طالبان ایک گروہ یا ایک خیال طاقت کا نام نہیں ہے یہ مختلف گروہوں میں بٹے ہوتے ہیں،زبان،نسل،مسلک کی تفریق اپنی جگہ بڑی تفریق شمال اور جنوب کی ہے موجودہ افغان حکومت میں اشرف غنی جنوب کے پشتو بیلٹ کی اور عبداللہ شمال میں فارسی بیلٹ کی نمائندگی کرتے ہیں اور دونوں رہنماؤں کے آپس میں شدید اختلاف ہیں۔

افغان طالبان کا یہ مشہور جملہ یا محاورہ بہت کچھ سوچنے پر مائل کرتا ہے کہ ”امریکہ کے پاس گھڑی ہے اور ہمارے پاس وقت “جہاں تک بات اشرف غنی کی کٹھ پتلی جمہوری حکومت کی ہے تو اس کے قدم ابھی سے لڑکھڑانے شروع ہو گئے کیونکہ طالبان نے امریکی افواج کے تیز رفتار انخلاء سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اشرف غنی کی افغان فورسز انتہائی سرعت کے ساتھ نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

America Ki Ghari Aur Taliban Ka Waqt is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 July 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.