''' بے حس رویے - ذمہ دار کون '''

جوس کارنر یا کسی سپر اسٹور کے قریب سے گزرنا بعض اوقات بچوں کے لیے بہت دلچسپی کا باعث بن جاتا ہے . عموما ایسی صورتحال میں ٹریفک کی روانی بھی متاثر ہو جاتی ہے اور بچے کافی دیر خوش ہو لیتے ہیں .دراصل یہاں بچوں کی دلچسپی کے لیے اسٹور انتظامیہ نے Human Circus کا اہتمام کیا ہوتا ہے.

Afshan Khawar افشاں خاور منگل 28 اگست 2018

Behis Rawaiye
جوس کارنر یا کسی سپر اسٹور کے قریب سے گزرنا بعض اوقات بچوں کے لیے بہت دلچسپی کا باعث بن جاتا ہے . عموما ایسی صورتحال میں ٹریفک کی روانی بھی متاثر ہو جاتی ہے اور بچے کافی دیر خوش ہو لیتے ہیں .
دراصل یہاں بچوں کی دلچسپی کے لیے اسٹور انتظامیہ نے Human Circus کا اہتمام کیا ہوتا ہے. جی ہاں ، Human Circus آج بھی مختلف اشکال میں موجود ہے.

اس کی سب سے معمولی شکل مکی ماؤس اور منی ماؤس کی شکل کے لبادے ا وڑھے لوگ ہوتے ہیں بظاھر یہ دونوں طرف سے جیت ہوتی ہے. بچے ان کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور اگلی بار اسی اسٹور پر جانے کی ضد کرتے ہیں. اور اسٹور مالکان کی مشہوری ہو جاتی ہے . ان کرداروں کے ساتھ تصویریں بنوائی جاتی ہیں.

(جاری ہے)

اور بعض اوقات بچے excitement میں ان کو دھکے بھی دیتے ہیں.
یہ لبادے کافی بھاری ہوتے ہیں.

اور عام طور پر ان کی سلائی اور کپڑے کے چناؤ میں پہننے والے کے جسمانی آرام کے بارے میں کوئی غور و خوص نہیں کیا جاتا.
یہ الله کی مخلوق جو کہ ابن آدم ہے اور اسی پیغمبر کی امت ہے جس نے جانوروں کے حقوق کی بھی آگہی اور ہدایت دی، ٢٠٠-٣٠٠ روپے روزانہ کی بنیاد پر سارا دن کھولتی ہوئی گرمی میں موٹے لبادے اور ماسک پہن کر بچوں کو خوش کرتی ہے.

اس کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا کہ اتنے حبس اور گرمی میں اس انسان پر کیا بیتتی ہو گی.
کچھ عرصہ قبل کسی ملنے والے کے بیٹے کی سالگرہ میں جانے کا اتفاق ہوا. شدید گرمی کا موسم تھا اور پارٹی لان میں تھی . میزبانوں نے بہت اچھا انتظام کر رکھا تھا لیکن گرمی اور حبس کے آگے وہ بھی بے بس نظر آتے تھے. وہاں ایک مکی ماؤس بھی بچوں کی تفریح کے لیے گھوم رہا تھا.

بچے اسے اپنے درمیان پا کر بہت خوش تھے اور اسے دھکے دے رہے تھے، جب مکی ماؤس کا لبادہ اوڑھے شخص کو دھکا دیا جاتا تو وہ اپنے بھاری لباس کے ساتھ بالکل ڈگمگا سا جاتا. بچے خوشی سے چیخیں مارتے اور قہقہے لگاتے. بچوں کو ہنستا دیکھ کر والدین بھی ہنس رہے تھے.
اچانک مکی ماؤس دھڑام سے گرا، کسی ملازم نے آگے بڑھ کر اس کے سر سے مکی ماؤس کا ماسک اتارا.

ماسک کے پیشے ١٤ - ١٥ سال کا ایک ملازم بچہ حبس سے دم گھٹ کر بے ہوش پڑا تھا. بچوں پر اس کا اثر دو طرح کا تھا.
کچھ زور زور سے رونے لگے کہ کیونکہ وہ مایوس ہو گے تھے کہ مکی ماؤس تو انسان نکلا ... باقی بچے بہت زور سے ہنسنے لگے کیونکہ بے ہوش ملازم بچے کی آنکھیں پھٹی ہوئی، چہرہ زرد ، اور منہ کھلا ہوا تھا، اور بچوں کے لیے وہ ایک تفریح تھا... خیر جلدی سے اسے وہاں سے ہٹایا گیا اور پارٹی دوبارہ شروع ہو گئی.
.....ایک سوال کا جواب آج تک نہیں ملا کہ ایک شخص یا ایک خاندان کے ظالم یا بے حس ہونے کی وجہ تو شائد سمجھ آ جائے لیکن اتنے سارے لوگ کس طرح بے حس ہو جاتے ہیں.

ہمیں اتنا شعور کب آے گا کہ
..........'' ہم ان کے لیے بولیں جو اپنے لیے نہیں بول سکتے....
لوگوں کو کیوں نظر نہیں اتا کہ شدید گرمی اور حبس میں اتنے موٹے لبادے اور ماسک کے پیچھے بھی ایک انسان ہوتا ہے. اسے بھی گرمی گرمی لگتی ہو گی اور حبس سے اس کا بھی دم گھٹتا ہو گا.
احساسات کو محسوس کرنے کی بھی ایک عمر ہوتی ہے اور اس کی تربیت دینا بھی بہت ضروری ہے.

جو بچہ چھوٹی عمر سے ہی بے حسی کا سبق لیتا ہے وہ بڑا ہو کر مشکل سے ہی ہمدرد انسان بن سکتا ہے.
یہ بچے اپنے بچپن میں مسخرہ یا مکی ماؤس کا روپ دھارے لوگوں کو دیکھ کر منہ چڑھاتے ہیں، ان کا مذاق اڑاتے ہیں، دھکے دیتے ہیں اور بعض اوقات مارتے ہیں ( جی ھاں ، یہ سب آنکھوں دیکھی کہانی ہے )، یہی بچے جب بڑے ھوتے ہیں تو بے زبان جنگلی سور یا گدھے پر مخالف سیاسی لیڈروں کے نام لکھ کر انھیں ڈنڈوں سے مارتے ہوے ویڈیو بنواتے ھیں اور Facebook پر share کرتے ہیں.

یہی بچے بے زبان کتوں کو مخالف سیاسی پارٹی کے پرچم میں لپیٹ کر گولیاں مرتے ہیں.
ہم سب کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ٢٢-٢٥ سال کے بالغ انسان کو اس مرحلے پر نہ تو سمجهانے سے زیادہ فرق پڑتا ہےاور نہ ہی اس مرحلے پر وہ بنیادی انسانی خصوصیات سیکھنے میں کوئی دلچسپی رکھتا ہے.
ایک اچھے انسان کی شخصیت بننے کا آغاز بہت پہلے سے ہوتا ہے. بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں بے رحمی ، ظلم ، سفاکی اور جھوٹ عام طور پر بچہ گھر سے سیکھتا ہے.
اگر گھر میں بلی آ جائے تو اسے کہا جاتا ہے اسے کھانے کو مت ڈالو، عادی ہو جائے گی اور بار بار آے گی.

اگر بلی گھر میں بچے دے تو بچے ماں سمیت یا اگر ماں رزق کی تلاش میں گھر سے باہر گئی ہے تو بغیر ماں کے ہی تھیلے میں بند کر کے ڈرائیور کے ذریعے دور پھینکوا دئیے جاتے ہیں. اگر کوئی بہت لاڈلا بچہ پالتو جانور کے لیے ضد کرے تو Animal Market سے ٥٠٠-١٠٠٠ میں کوئی جانور کا بچہ خرید کر دے دیا جاتا ہے. ماں آتے جاتے سب کو بتاتی ہے کہ چار دن کا شوق ہے پورا ہو جائے تو نکال دیں گے.

عموما اس طرح کے خریدے ہوے بچے بہت چھوٹی عمر میں ماں سے الگ ہوتے ہیں اور وہ جلد ہی مر جاتے ہیں. یا اگر بہت سخت جان ہوں تو چند دن بعدبچے کی ماں کسی بہانے سے یا تو اٹھا کر کسی کو دے دیتی ہے یا دور کہیں پھینکوا دیتی ہے .
...ماں باپ کو اتنا شعور نہیں ہوتا کہ ایک پالتو جانور ایک زندگی ہوتا ہے، کوئی روئی بھرا کھلونا نہیں جو بچے کی ضد پر خرید لیا جائے .

...
تکبر کا پہلا درس بھی بچے کو بد قسمتی سے گھر سے ہی ملتا ہے. گھر میں ملازمین کے برتن الگ ہوتے ہیں. اور بچوں کو ہدایت ہوتی ہے کہ ان برتنوں کو نہ تو ہاتھ لگانا ہے اور نہ ہی ان کو استعمال کرنا ہے. یہ تمام اسباق بچوں کو ابتدائی طور پر گھر میں ہی پڑھاے جاتے ہیں....
اکثر سننے میں آیا ہے کہ نئی نسل میں رشتوں کا احترام ، اخلاق اور سلجھاؤ نہیں.

بچے کی لمبی زبان کے پیچھے ایک لمبی کہانی ہوتی ہے اور اس کہانی کے کردار وہی لوگ ہوتے ہیں جو اس کی لمبی زبان کی شکایت کر رہے ہوتے ہیں.
مخلوط خاندانی نظام کسی زمانے میں شاید اپنا مفید کردار ادا کرتا ہو گا . مگر آجکل اس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ یہی معصوم بچے ہیں. والدہ دادی کے بارے میں بچے کے کان بھرتی ہے اور عہد لیتی ہے کہ تم جوان ہو کر مجھ پر کے گۓ ہر ظلم کا حساب لینا...

دادی الگ رو رو کر بچے سے ماں کی برائیاں کرتی ہے . ان حالات میں بعض اوقات بچہ ماں کی طرف کھچتا ہے اور بعض اوقات دادی کی طرف. .. تھوڑا بڑا ہوتا ہے تو سمجھ اتی ہے کہ وہ تو MONOPLY کا کھیل کھیل رہی تھیں اور زیادہ سے زیادہ ملکیت بنانے کے چکر میں تھیں. وہ ذہنی طور پر دونوں کو ہی پھپھا کٹنی declare کر دیتا ہے.
والدین عام طور پر بزرگوں کو بنا بتاے dinner یا lunch پر باہر جاتے ہیں.

اور گھریلو مسائل سے بچنے کے لیے عام طور پر بچوں کو کوئی جھوٹ رٹوا دیا جاتا ہے. اب یہ بچہ ایک دن میں ٣ بری باتیں سیکھتا ہے ...
١) جب بھی بھر جا کر enjoy کرنا ہو تو والدین کو بلکل نہیں لے کے جانا.
٢)کسی مشکل سوال کا سامنا کرنا پڑے تو فورا جھوٹ بول دو
٣) دوسرے انسان کی ذاتی خوشیوں یا privacy کی کوئی اہمیت نہیں اور ہمیں ہر کسی سے ہر بات پوچھنے کا حق ہے.
اب جب یہ بچہ تھوڑا بڑا ہو کر والدین کے بجاے دوستوں کے ساتھ باہر جا کر تفریح کرے گا تو والدین کو فورا اپنے حقوق یاد آ جائیں گے.

واپسی پر بچہ پوچھنے پر جھوٹ بولے گا تو بچے کا ایمان بھی مشکوک ہو جائے گا.
والدین کو آجکل ایک اور مسلے کا سامنا ہے اور بچے بات بے بات پر اپنے والدین، اپنے گھر اور سماجی حثیت کا مقابلہ اپنے دوستوں سے کرتے ہیں. اور اپنے والدین کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے ان سے نالاں نظر آتے ہیں. اس مسلے کو سمجھنے کے لیے بھی ہمیں اپنے گریبانوں میں منہ ڈالنے کی ضرورت ہے....

جب بچے کا رزلٹ آتا ہے تو والد اس کا گریڈ کارڈ سامنے رکھ کر ہر ہر جاننے والے کے بچے کے گریڈ سے اس کا موازنہ کرتا ہے. وہ یہ بھول جاتا ہے کہ سامنے بیٹھا ہوا بچہ ایک ننھا منا مکمل انسان کی شخصیت ہے. جب ہم ننھے بلکہ مکمل انسان کی شخصیت توڑ رہے ہوتے ہیں. تو ہم اس بات سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں.کہ اس ٹوٹی ہوئی شخصیت کی کرچیاں معاشرے کے ساتھ ساتھ ساری عمر ہمیں بھی چبھتی رہیں گی.

خدا کے لیے اس بات کو سمجھیں کہ جب بچہ کسی چیز میں ناکام ہو کر واپس آے تو اسے گلے سے لگایں ، اسے بتایں کہ ہمارے لیے تم اہم ہو ، تمہاری کامیابی یا ناکامی نہیں. کیا ہوا اس بار تم یہ نہیں کر سکے ، ہو سکتا ہے کہ اگلی بار تم اس سے اور اچھے طریقے سے کر سکو. اگر تمہیں یہ میدان عمل پسند نہیں ہے تو کوئی بات نہیں. ہم مل کے کوئی اور چیز تلاش کرتے ہیں جس میں تمہیں دلچسپی ہو.

اسے بتایں کہ اس کی کامیابی سے زیادہ اہم وہ خود ہے. ایسے والدین نہ بنیں جنھیں دیکھ کے بچے سہم جا ئیں. اس طرح کے والدین بنیں کہ بچہ زیادہ سے زیادہ وقت آپ کے ساتھ گزارنا چاہے. جس عمر کے بچے کے لیے الله تعالیٰ نے نماز پڑھنا بھی فرض نہیں کیا اس عمر میں اگر آپ بچے کو خود سے دور کر کے اسکول ، بورڈنگ بھیجیں گے تو یقین کریں مستقبل کے کسی اولڈ هوم میں آپ کا نام بھی لکھ دیا جائے گا .

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Behis Rawaiye is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 August 2018 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.