چیف جسٹس صاحبان کے اہم کارنامے

جسٹس ناصر الملک نے اپنے عہدے پر رہتے ہوئے آخری بیانات میں کہا کہ ان کا دور بڑا ہنگامہ خیز گزرا تین نومبر2007ء کی ایمرجنسی ،سابق چیف جسٹس اور عدلیہ بحالی تحریک کا مشکل دور دیکھا۔ جب انہوں چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا

ہفتہ 5 ستمبر 2015

Chief Justice Sahiban K Ehem Karname
محمد صلاح الدین خان:
تیزی سے بدلتی ملکی صورتحال کے ساتھ ساتھ آئینی ادارے سپریم کورٹ میں تین چیف جسٹس صاحبان کی تبدیلیوں نے بھی ملکی صوتحال میں اہم کردار ادا کیا ان اتار چڑھاؤسے پیدا ہونے والے ارتعاش کا اثر سیاست،فوج،عدلیہ،عوام غر ض ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے پر پڑا اور پڑ رہا ہے وقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات کی کڑیاں باہم ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔

جسٹس ناصر الملک 6جولائی 2014ء سے 17اگست 2015ء تک چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر فائزرہے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ 17اگست سے 10ستمبر2015تک رہیں گے اور ن کے بعد،جسٹس انور ظہیر جمالی 10ستمبر 2015ء سے 31دسمبر 2016ء تک اس پروقار عہدے پر فائز رہیں گے۔جسٹس ناصر الملک نے16 اگست کو ریٹائرمنٹ سے قبل جو بڑے فیصلے دیئے ان میں انکوائری کمیشن کی رپورٹ، فوجی عدالتوں کے قیام اور 21 و 18ویں ترمیم پر فیصلہ ہے۔

(جاری ہے)

جسٹس ناصر الملک نے اپنے عہدے پر رہتے ہوئے آخری بیانات میں کہا کہ ان کا دور بڑا ہنگامہ خیز گزرا تین نومبر2007ء کی ایمرجنسی ،سابق چیف جسٹس اور عدلیہ بحالی تحریک کا مشکل دور دیکھا۔ جب انہوں چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالاتو اس وقت شاہرائے دستور پر تحریک انصاف اور عوامی تحریک کا دھرنا تھاپھر انکوائری کمیشن اور اب جب وہ جارہے ہیں تو دھرنے کے آفٹر شاک آ رہے ہیں، انہوں نے آئین وقانون کی حکمرانی کیلئے بھرپور کوشش کی اور امید کی کہ آنے والے ججز بھی ایسا ہی کریں گے،جسٹس جواد ایس خواجہ کو افتخار ثانی کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا جیسا کہ ان سے امید کی جارہی تھی عین اس کے مطابق انہوں نے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوتے ہی ہنگامہ خیز انداز میں اپنے فرائض کا آغاز کیا جس سے بلاشبہ ایک ہلچل ضرور مچ گئی، ایوان اقتدار ،سرکاری اداروں میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی ،جسٹس جواد ایس خواجہ کے دورکے بارے میں تہلکہ خیزی کی بات غلط ہوتی تو چیئرمین مین نیب چھٹی لیکربرطانیہ نہ جاتے ،وزارت داخلہ کو یہ بیان نہ دینا پڑتا کہ نیشنل ایکشن پلان پر یہ تاثر غلط ہے کہ ایک ٹکے کا کام نہیں ہواجسٹس جواد ایس خواجہ نے نڈر اور دلیر چیف جسٹس کا کردار ادا کیا جہاں لوگ تذبذب کا شکار ہوتے ہیں کہ ان کے پر جلتے ہیں اس آتش نمرود میں بلاخوف خطر کود پڑے یہی وہ کچھ کرنے کا جذبہ تھا جس نے ایوان اقتدار میں زلزے کا کام کیا ،اور چیف جسٹس کے سوموٹو اختیار پر قد غن لگانے کی بھی بازگشت سنی جانے لگی۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کا 21ویں آئینی ترمیم کے فیصلے میں کہنا ہے کہ جمہوریت ، مذہب ، بنیادی انسانی حقوق ، آزاد عدلیہ ، عدلیہ کی انتظامیہ سے علیحدگی اور فئیر ٹرائل آئین کے بنیادی جزو ہیں۔ پارلیمنٹ کی ترمیم کو مخصوص حالات میں کالعدم قرار دے سکتی ہے ،منتخب نمائندے کوئی بھی ایسا قانون یا آئینی ترمیم نہیں لا سکتے جو عوام الناس کے مفادات کے برعکس ہو ،ایسا قانون یا ترمیم جو جمہوریت کے اصولوں کے منافی ہو یا عدلیہ کی آزادی سے متصادم ہو منتخب نمائندگان کے اختیارات میں شامل نہیں ہے، انہوں نے لکھا ہے کہ آرٹیکل 51 کی ترمیم سے اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے عوامی مفاد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر متعدد سوموٹولیئے اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بعد یہ باور کرایا کہ آئین و قانون بالا دست ہے قانون سب کیلئے برابر ہے انہوں نے آئین کے مطابق بلا تخصیص اصلاحات ریفارمزکی کوشش کی اور اس کا عملی مظاہر ہ کیا تو عدلیہ پر اختیار سے تجاوز کرنے کا الزام لگایا جانے لگا جس پر چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا ہے کہ جب حکومت اور حکومتی ادارے آئین کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کریں گے تو سپریم کورٹ مداخلت ضروری کرے گی۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے سردخانے میں 2009سے پڑا بلدیاتی انتخابات کا کیس سماعت کیلئے مقرر کیا جس کے نتیجے میں بلوچستان ،کے پی کے اور کنٹونمنٹ الیکشن کے بعد اب سندھ اور پنجاب اور اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات ہورہے ہیں جس کا الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کردیا ہے۔اردو کیس اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دلانے اور مقامی زبان کی ترویج کیلئے سماعت کرتے ہوئے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا۔

خود بھی اردو میں مقدمات کے فیصلے لکھے۔قانونی کتب کی غلط اشاعت کو روکا قوانین کا اردو میں ترجمہ کروایا۔ تقریبا یڑھ لاکھ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مستقل کیا اور ان کی تنخواہوں کو ریگولر کروایا۔ ملک بھر میں مزدور کی کم سے کم مقرر کردہ اجرت پر عمل کروایا۔سفارخانوں اور دیگر بااثر اافراد کی جانب سے اسلام آبادمیں کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں رہائشی پراپرٹی کے کمرشل استعمال پر سوموٹو لیا گیا۔

18ارب زرمبادلہ بھیجنے والے تارکین وطن کو ائرپورٹس پر سہولیات کی عدم فراہمی کے معاملے پر ازخود نوٹس لیا۔ملک بھر میں وکلاء کے خلاف آنے والی شکایات کوڈ آفس کنڈکٹ پر سوموموٹو لیا۔پولیس کی جانب سے شہریوں پر جعلی مقدمات کے اندارج کے خلاف سوموٹو لیا اور وفاق سمیت چاروں صوبوں سے رپورٹس طلب کیں۔میڈیا کمیشن کیس کا فیصلہ دیا ضاابطہ اخلاق بنوایامستقل چیئرمین پیمرا کی تیس دن میں تعیناتی کا حکم دیا۔

غیر فعال پی ایم ڈی سے معلق کیس عدالتی حکم پر وزیر اعظم نے نیا آرڈیننس جاری کیا اور نئی انتظامیہ کے لئے120دن میں انتخابات کروانے کا حکم دیا۔آئل و گیس کمپنیوں کی جانب سے ضلع سانگھڑ سمیت دیگر علاقوں میں ترقیاتی کام نہ کرانے پر تقریباایک سو ارب کے فنڈز دلوائے اور صوبوں نے میکنزم واضح کیا۔ایک آئی اے کے کم تفتیشی بجٹ پر سوموٹو لیا گیا۔

اوگرا کرپشن کیس سابق دور حکومت میں چھ سو پچاس سی این جی کیس میں میکنزم واضح کیا۔نیب کی عدم پراگرس،اقربا پروری،مالیات پر سوموٹو لیا جس کے نتیجے میں 179میگا سکینڈلز منظر عام پر آئے کا مانیٹرنگ نظام بناکر دیا گیا۔بحریہ ٹاون ڈی ایچ اے ،جنگلات اراضی پر دس سال بعد ایف آر درج کروائی گئی۔ ملک بھر میں ریلوے کی اراضی پرقبضوں کو سوموٹو لیا،کراچی میں اراضی پر لینڈمافیا قبضہ کا نوٹس لیا۔

ملک بھر میں کام کرنے والی غیر قانونی این جی اوز کی رجسٹریشن فنڈنگ پر سوموٹو لیا گیا۔لاپتہ افراد سے متعلق 34 مقدمات سماعت کیلئے لگائے۔گرے ٹریفکینگ سوموٹو لیا۔چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کا نوٹیفیکیشن اردو میں جارہی ہوا اور انہوں نے اردو میں لکھا حلف اٹھایا۔ملک کی عدالتی تاریخ میں سب سے کم عرصہ چیف جسٹس پاکستان رہنے والے افراد کی فہرست میں جسٹس جوادکاایس خواجہ کا نمبردوسرا ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ ملک کے23ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے 17اگست کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا اور24 دن چیف جسٹس کے عہدے پر رہنے کے بعد10 ستمبر کو65 سال کی عمر تک پہنچنے کے بعدسبکدوش ہو جائیں گے۔ان سے پہلے چیف جسٹس محمد شہاب الدین صرف10 دن کے لیئے چیف جسٹس رہے تھے۔ انھوں نے3 مئی 1960کو بطور چیف جسٹس عہدے کا حلف لیا اور 12مئی کو سبکدوش ہوئے گئے تھے۔

جسٹس بشیر جہانگیری تیسرے نمبر پر ہیں جو 25 دن چیف جسٹس رہے انہوں نے 7 جنوری 2002 کو چیف جسٹس کے عہدے کاحلف اٹھایا تھا اور31 جنوری2002 کو رٹیائرڈہوگئے تھے۔جسٹس شہاب الدین اور جسٹس جہانگیری کے بعد جسٹس جواد تیسرے جج ہوں گے جو کم عرصہ کے لیئے چیف جسٹس بنے۔ بطور چیف جسٹس ،جسٹس جواد ایس خواجہ کے 10 اگست2015کوریٹائر ہونے کے بعد ،جسٹس انور ظہیر جمالی چیف جسٹس بنیں گے جو31دسمبر 2016ء کو ریٹائرہوں گے ان کا تعلق سندھ سے ہے ،ان کے بعد جسٹس میاں ثاقب نثار چیف جسٹس بنیں گے اور 18جنوری 2019ء کو ریٹائر ہوجائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Chief Justice Sahiban K Ehem Karname is a investigative article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 September 2015 and is famous in investigative category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.