یورپ میں پناہ گزینوں کو عیسائی بنانے کی مہم

”اسلام کا جائزہ لینے“میں عیسائی پادریوں کا اسلام کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈہ شامل ہے

بدھ 19 جولائی 2017

Europe Main Panah Guzeenon Ko Esai Bananay Ki Mohim
محسن فارانی:
اخبار میں تصویر چھپی جس کے ساتھ تفصیل یہ تھی کہ کیتھولک عیسائیوں کے روحانی پیشوا یورپ فرانس نے روم کے قریب شامی پناہ گزینوں کے پیر دھوئے تھے۔پوپ نے جن مسلمانوں کے پاؤں چومے،ان میں 23 سالہ شامی نوجوان محمد الحلی بھی شامل تھا۔مسیحی روایت ہے کہ سیدنا عیسی نے اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے حواریوں کے پاؤں دھوئے تھے۔

سنت عیسوی کے مطابق مظلوم مسلم پناہ گزینوں کی یہ قدر افزائی اگرچہ خوش آئند ہے مگر پوپ کا یہ اقدام اپنے پیروکاروں کے لئے یہ ترغیب بھی ہے کہ ستم رسیدہ مسلم پناہ گزینوں کو محبت اور خدمات کے طریقے سے عیسائیت کے حلقہ بگوش بنایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں ”اے ایف پی“ کی جیسیکا برتھریو اپنی رپورٹ میں لکھتی ہیں کہ : برلن (جرمنی)کے ایک گرجے میں سفید کپڑوں میں ملبوس سعید،ویرونیکا،فریدہ اور متین اتوار کے دن عیسائی بن رہے تھے۔

(جاری ہے)

ایرانی باشندے بیس برس کے متین نے بپتسمہ لینے کے بعد اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:”میں بہت خوش ہوں۔میں خیال کرتا ہوں کہ اپنے دلی جذبات کا اظہار کیسے کروں۔“ دیگر کئی مسلم پناہ گزین بھی عیسائیت کی طرف مائل ہورہے ہیں جبکہ 2015 ء میں 9 لاکھ افراد نے جرمنی میں پناہ لی۔ کلیسا کے رہنماؤں نے بہت بڑی تعداد میں تو نہیں مگر قابل ذکر تعداد میں پناہ گزینوں کے عیسائیت قبول کرنے کی تصدیق کی ہے اگرچہ اس سلسلے میں اعدادوشمار فراہم نہیں کئے گئے۔

سپیئر کے ایک کیتھولک پادری فیلکس گولڈ نگر کا کہنا ہے:ہمارے کلیسا میں پناہ گزینوں کے کئی گروپ ہیں جو بپتسمہ لینے کے لئے تیار ہیں جبکہ ہمارے پاس زیادہ سے زیادہ درخواستیں اس نوعیت کی آرہی ہیں۔“اس نے بتایا کہ کئی لوگ ایران اور افغانستان سے آئے ہیں اور بعض شام اور اریٹریا سے ہیں۔گولڈ نگر نے کہا کہ ”فی الحال میں 20 افراد کے گروہ کی دیکھ بھال کر رہا ہوں مگر میں نہیں جانتا کہ ان میں سے کتنے لوگ بپتسمہ لینے کو تیار ہوں گے۔

“ گولڈ نگر کے گرجے میں مسلمانوں کی بپتسمہ دینے کے سلسلے میں گزشتہ ایک سال میں جو تیاریاں کی گئیں ،ان میں ممکنہ مرتدوں کی حوصلہ افزائی شامل تھی کہ اس دوران میں وہ اپنے رحجانات کا جائزہ لیں۔گولڈ نگر نے بتایا کہ ”اس عرصے میں ان سے کہا گیا کہ اپنے مذہب اسلام کا جائزہ لیتے ہوئے وہ وجوہات مد نظر رکھیں جن کی بنا پر وہ اپنا مذہب تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

ظاہر ہے ”اسلام کا جائزہ لینے“میں عیسائی پادریوں کا اسلام کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈہ شامل ہے،جو وہ صدیوں سے کرتے آرہے ہیں اور اپنے دین سے بے خبر مسلم نوجوان آسانی سے اس کا شکار ہوجاتے ہیں جبکہ ان کے موجودہ دور ابلتلاء میں یورپی عیسائیوں کی ان سے ہمدردی ان کے ارتداد کا باعث بن رہی ہے،چنانچہ گولڈ نگر کہتا ہے:”کئی لوگ اپنے ان تجربات کو یاد کرتے ہیں جن سے وہ اپنے ملک میں گزر کر آئے ،یہ کہ وہاں مذہب کے نام پر دہشت گردی کی کاروائیاں ہورہی ہیں،چنانچہ وہ عیسائیت کو محبت اور انسانی زندگی کے احترام کے مذہب کے طور پر دیکھتے ہیں۔

“ لنکے نامی پادری نے بتایا کہ ”اسلامی جمہوری ایران میں کئی لوگ غیر منظور شدہ گرجوں سے رابطے میں تھے جہاں تبدیلیء مذہب ممنوع ہے،لہذا انہیں وہاں سے فرار ہونا پڑا۔دوسرے پناہ گزیں یورپ کی طرف سفر کے دوران میں عیسائیوں سے ملے“جیسیکا لکھتی ہیں:اکتیس برس کے ایرونائیکل انجنیئر سعید کا معاملہ ایسا ہی تھا جس نے ترکی میں چار ماہ ایک عیسائی کے ساتھ گزارے اور پھر اس کے مذہب میں دلچسپی لینے لگا۔

سعید افغانی ہے اور اس کے ساتھ ہی عیسائیت کی حلقہ بگوش ہونے والی ویرونیکا کا تعلق بھی افغانستان سے ہے۔غالباََ سعید افغانی نے کسی یورپی ملک میں زیر تعلیم رہنے کے دوران میں ویرونیکا کو مسلمان بنا لیا ہوگا اور اب سعید کے ساتھ ہی وہ واپس عیسائیت کی آغوش میں چلی گئی۔ ایرانی باشندہ متین کہتا ہے کہ عیسائیت سے اس کا اولین واسطہ یونان میں پڑا ۔

جب وہ جرمنی پہنچا تو اپنے جرمن دوستوں کے ذریعے فری ایو ینجلیکل چرچ سے رابطہ کیا۔اس کی بہن فریدہ نے بھی یہی کیا اور پھر دونوں بپتسمہ لینے کے لئے جرمن اور فارسی میں تیاریاں کرنے لگے۔فریدہ نے بتایا کہ وہ کسی گرجے کی تلاش میں تھی اور ”مکمل آزادی میں “وہ اپنے مذہب کا انتخاب کرنا چاہتی تھی۔لنکے کے بقول”یہ مکمل آزادی ایک عیسائی بننے کی بہت اہم وجہ ہے۔

“وہ کہتا ہے:”جو تارکین وطن جرمنی کا غالب مذہب قبول کرتے ہیں ،ان میں آزادی سے اپنے زندگی کا رخ متعین کرنے اور اپنا فیصلہ خود کرنے کی شدید خواہش ہوتی ہے۔جیسیکا کے بقول جرمن کلیسا کے پادری خود تسلیم کرتے ہیں کہ بعض نو عیسائی جرمن معاشرے میں مدغم ہونے کی خواہش رکھتے ہیں اور بعض یہ سمجھتے ہیں کہ عیسائی بننے سے ان کے لیے سیاسی پناہ حاصل کرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

اسلام چھوڑ کر عیسائیت کے حلقہ بگوش ہونے والوں کی کلیسا پوری حمایت کرتا ہے کہ اگر حکومت نے انہیں واپس ان کے ممالک میں بھیج دیا تو وہاں وہ خطرات سے دوچار ہوں گے کیونکہ بعض مسلم ممالک میں ارتداد توہین رسالت کی سزا جیل یا سزائے موت اور ان میں ایران ،موریطانیا، سعودی عرب اور افغانستان شامل ہیں جبکہ دولت اسلامیہ (داعش) کے نزدیک بھی تبدیلی مذہب قابل تعزیر گناہ ہے گولڈ نگر کا کہنا ہے کہ ایسے پناہ گزیں بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ عیسائیت قبول کرنے سے یورپ میں ان کا قیام آسان ترہوگا۔

جرمنی کا ”دفتر برائے مہاجرین وتارکین وطن“اکثر لنکے سے مشاورت طلب کرتا ہے،چنانچہ لنکے کہتا ہے:حکام کے لئے اہم مسئلہ ہے کہ کیا نو عیسائی جرمنی میں قیام کے قابل بننے کے لیے مذہب تبدیل کرتے ہیں۔میں ان سے استفسار کرتا ہوں کہ کیا وہ واقعی دل و جان سے نیا مذہب اختیار کرنا چاہتے ہیں۔بپتمسہ لینے کے بعد ان میں سے اکثر عملی عیسائی بن کر گرجے میں عبادت کرنے آتے ہیں ،تاہم اپنی نئی عیسائی برادری کے باہر وہ عموماََ اپنے مذہب کا اظہار نہیں کرتے“یونین آف فری ایونجیکل کے عہدیدار تھا مس کلمٹن کے بقول “پناہ گزینوں کے گھروں میں مشکل صورت حال پیدا ہی ہوسکتی ہے جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے انہیں اپنے اہل خانہ کے حوالے سے بھی خوف ہوگا جو پیچھے ان کے آبائی ملک میں رہ گئے ہیں۔

“لیکن متین کہتا ہے کہ وہ ایران میں اپنے رشتے داروں خصوصاََ ماں سے رابطے میں ہے جس نے اس کی تبدیلی ء مذہب پر آمادگی ”قبول کرلی ہے“ ”وہ ہر اتوار کو یہ پوچھنے کے لئے فون کرتی ہے کہ کیا تم عبادت کے لیے گرجے گئے تھے۔“جیسیکا کے بقول متین نے یہ بات ہنستے ہوئے بتائی۔  جرمن وزیر ترقیات نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ حکومت پناہ گزینوں کی ان کے گھروں کو واپسی پر 15 کروڑ یورو صرف کرے گی۔

یہ فنڈ حصول پناہ میں ناکام رہنے والوں اور پناہ گزینوں دونوں پر صرف کیا جائے گا جبکہ اگلے تین برس میں اس واپسی پروگرام پر 50 کروڑ یورصرف کئے جائیں گے۔یہ فنڈ عراقیوں،افغانیوں اور بلقان کے پناہ گزینوں کے لئے وقف ہو گا۔گرڈمیولر نے یہ بات “نامی رونامے کو انٹرویو دیتے ہوئے بتائی ۔ان کے بقول ہم انہیں تعلیم ،پیشہ وارانہ تربیت ،روزگار اور سماجی فوائد پیش کرسکتے ہیں ۔

جرمن چانسلر انجیلا مرکیل اپنی جماعت کرسچین ڈیمو کریٹک یونین کے دباؤ پر تارکین وطن کے معاملے میں سخت پالیسی اپنانے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ان کی سابقہ اوپن ڈور پالیسی اپنانے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ان کی سابقہ اوپن ڈور پالیسی پر بڑی تنقید ہوئی ہے کیونکہ بعض نووار پناہ گزیں جرائم میں ملوث ہوئے ہیں۔ایک افغانی لڑکا ایک جرمن طالبہ کی آبرو ریزی اور قتل کے جرم میں گرفتار ہوا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Europe Main Panah Guzeenon Ko Esai Bananay Ki Mohim is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 July 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.