
جے آئی ٹی رپورٹ کی آڑ میں سکیورٹی اداروں پر تنقید
پانامہ ،آف شور کمپنیوں سے متعلق ”لیکس“ کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ اس میں پاکستان کا کوئی ادارہ ملوث نہیں اور اس حقیقت سے بھی دنیا آگاہ ہے کہ ا ن لیکس کی بدولت بہت سے ملکوں کے سربراہان کو اپنی عوام کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح پاکستان سے شریف خاندان کے علاوہ بھی سینکڑوں پاکستانیوں کے نام مذکورہ لیکس میں سامنے آئے
جمعہ 21 جولائی 2017

پانامہ ،آف شور کمپنیوں سے متعلق ”لیکس“ کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ اس میں پاکستان کا کوئی ادارہ ملوث نہیں اور اس حقیقت سے بھی دنیا آگاہ ہے کہ ا ن لیکس کی بدولت بہت سے ملکوں کے سربراہان کو اپنی عوام کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح پاکستان سے شریف خاندان کے علاوہ بھی سینکڑوں پاکستانیوں کے نام مذکورہ لیکس میں سامنے آئے۔ بھارت میں حکمران طبقہ سے کسی کا نام شامل نہیں تھا تاہم بہت سی کاروباری و دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کے نام سامنے آئے۔ پاکستان میں چونکہ شریف خاندان برسراقتدار ہے تو اس کی وجہ سے میڈیا کیلئے یہ ایک ”ہاٹ کیک“ ثابت ہوا۔ ملک میں جاری سیاسی کشیدگی نے بھی اپنا رنگ جمایا تو اس کے بعد پانامہ‘ آف شور کمپنیوں کے مسئلے نے مستقل زیر بحث رہنے والے موضوع کی شکل اختیار کر لی۔
(جاری ہے)
اگست 1947ء میں پاکستان وجود میں آیا۔ حضرت قائداعظم اور نواب لیاقت علی خان اورانکے رفقا جو جدی پشتی نواب تھے اور پاکستان کیلئے دو قومی نظریے کے تحت دیکھے گئے خواب کی تکمیل کیلئے انہوں نے ایمانداری و سادگی کو حکمرانی کا رہنما اصول بنایا تھا۔ انکے ساتھ آج کے سیاستانوں کو کیا ملانا جو سیاسی جماعتوں میں مورثیت کو جمہوریت اور غریب و مقروض ملک سے تعلق کے باوجود بادشاہوں جیسی بودوباش کو اپنا استحقاق قرار دیتے ہیں۔ احتساب پر عمل میں انہیں جمہوریت کا مستقبل تاریک دیکھائی دینے لگتا ہے یہی مورثی سیاست کا تاریک پہلو ہے کہ جب ایک ہی خاندان اپنی پوری سیاسی جماعت کا اس انداز سے مالک بن جاتا ہے کہ کوئی اپنے سربراہ سے اختلافات تو دور کی بات ہے اسکی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھ سکے تو ایسی جماعت کے اقتدار میں آنے کے بعد برسراقتدار خاندان ریاستی اداروں کے ملازمین سے بھی پارٹی نمائندوں کی طرز پر وفاداری کی توقع کرنے لگتا ہے۔ انحراف پر نوکر شاہی سے ایسے کمزور افسران کو اہم ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں کہ وہ احسان مندرہے اور ہر حکم بجا لاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں نہ چاہتے ہوئے بھی برسر اقتدار خاندان کے اثاثہ جات میں اضافہ فطری عمل ہے کیونکہ احتساب کرنے والا کوئی نہیں ہوتا نہ ہی اخلاقی قدروں کی پرواہ رہتی ہے اور قانون غلاموں کی طرح ہاتھ باندھے مودب کھڑا دکھائی دیتا ہے ورنہ جمہوری نظام تو نام ہی حکمرانوں کے اعلیٰ اخلاقی اقدار کا ہے۔اور یہاں پانامہ آف شور کمپنیوں پر بات بڑھی ہی اسی لئے کہ ریاستی اداروں کے سربراہان برسراقتدار خاندان کیخلاف تحقیقات کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ پارلیمنٹ اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام رہی تو معاملہ سڑکوں پر احتجاج کی شکل اختیار کر گیا۔ تحریک انصاف کے رجوع کرنے پر پہلے تو عدلیہ نے مقدمہ تکنیکی بنیادوں پر سننے سے انکار کردیا۔ سڑکوں پر احتجاج بڑھا تو وزیراعظم نے خود ہی عدالت عظمی کو خط لکھ کر اپنے احتساب کیلئے درخواست دے دی جو کہ ایک احسن اقدام تھا تاہم جب وزیراعظم اور انکے بچوں کے وکلاء عدلیہ کو شریف خاندان کے اثاثوں کی شفافیت سے متعلق مطمئن کرنے میں ناکام رہے تو عدالتی معزز بنچ کے تقسیم شدہ فیصلے پر جے آئی ٹی کے قیام کا فیصلہ ہوا جس پر حکمران خاندان اور انکی جماعت نے خوشیوں کے شادیانے بجائے لیکن ٹھیک دو ماہ بعد جے آئی ٹی کی طرف سے عدالت عظمی میں رپورٹ جمع کرائے جانے سے کچھ عرصہ قبل عدالت عظمی کے حکم پر قائم جے آئی ٹی کو متنازعہ بنانے کا عمل شروع ہوگیا کیونکہ وہاں پیش ہونیوالے ان سے پوچھے گئے سوالات کی بدولت بھانپ چکے تھے کہ تحقیقات کرنے والے ایسے حقائق بھی تلاش کر چکے ہیں جن کاجھٹلایا جانا ان کے بس کی بات نہیں۔ رپورٹ پیش ہوئی تو اسکے پیچھے نام لئے بغیر فوج اور آئی ایس آئی کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کردیاگیا کہ وہی رپورٹ کے اصل سکرپٹ رائٹر ہیں اور برسراقتدار خاندان کیخلاف سازش کی جا رہی ہے۔ کیونکہ جے آئی ٹی‘ عدالت عظمی کے حکم پر قائم ہوئی تھی۔ تحقیقاتی رپورٹ وہاں جمع ہو چکی۔ آئندہ کا لائحہ عمل و فیصلہ عدالت عظمی ہی نے کرنا ہے۔ اس میں کیسی سازش اور کون سی سازش خصوصاً ملک کے اہم سکیورٹی کے اداروں کا عدالت عظمی کے حکم پر کرائی گئی تحقیقات میں مدد کرنا دیگر ریاستی اداروں کی طرح آئینی فرض تھا جو انہوں نے ادا کیا۔ اسے سازش قرار دیکر فوج اور آئی ایس آئی کو ہدف تنقید بنانے والے وزراء یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ مردم شماری، انتخابات ،حادثات و قدرتی آفات جیسے مسائل پر بھی خود کچھ کرنے کی بجائے وہ فوج کو آگے کرکے خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
ایک ہے بلا
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
بھونگ مسجد
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
مزید عنوان
JIT Report Ki Aar Main is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 July 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.