پی ڈی ایم ”چوں چوں کا مربہ“

زرداری مفاہمت جبکہ شہباز شریف جارحانہ طریقے سے ”باری“ کی تلاش میں ہیں

منگل 28 ستمبر 2021

PDM Choun Choun Ka Muraba
امیر محمد خان
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا یہ کہنا کہ شہباز شریف،بلاول،مریم بی بی،فضل الرحمان پر مشتمل ”پی ڈی ایم“ ایک ”چوں چوں کا مربہ“ بن گیا ہے کیونکہ ایک کی رائے اور دوسرے کی اور تیسرے کی رائے کیا ہے کچھ پتہ نہیں۔اس میں کوئی دورائے بھی نہیں ہیں کہا پوزیشن جماعتیں ان دنوں اندرونی انتشار کا شکار ہیں جس کا تحریک انصاف کی حکومت بھرپور فائدہ اُٹھا رہی ہے۔

مسلم لیگ (ن) میں ”ٹاس“ ہو رہا ہے کہ قیادت کون کرے گا۔ایک ہفتے قیادت شہباز شریف،اگلے ہفتے مریم صفدر اور پھر ”ٹاس“ ہوتا ہے کہ شاہد خاقان عباسی قیادت کریں گے پھر کہی جا کر باری نواز شریف کے بیانوں کی آتی ہے،بظاہر دیکھا جائے تو اپوزیشن کی طرف سے اب تک کوئی ایسی سنجیدہ بات سامنے نہیں آ رہی ہے جس کا عوام کو انتظار ہے۔

(جاری ہے)

بات تو کسی حد تک دل کو لگتی ہے ماسوائے ”ٹاس“ والی بات کے مگر کنفیوژن ضرور ہے۔


 بلاول بھٹو تو دوسرے ٹریک پر ہیں انہیں کسی نے کہہ دیا ہے کہ نواز شریف کے بیانیہ کی وجہ سے ”کرتا دھرتا“ لوگ اب مسلم لیگ ن کو آنے نہیں دیں گے یہ ”کرتا دھرتا“ کہ لفظ میں نے سینئر سیاستدان چوہدری شجاعت سے جدہ میں سیکھا مگر کچھ سمجھ نہ آیا میں آج تک عوام کو ہی ”کرتا دھرتا“ سمجھتا رہا ہوں جب ق لیگ کے جمالی وزیراعظم تھے اس وقت جدہ میں چوہدری شجاعت کے اعزاز میں جدہ کمیونٹی نے ان کے اعزاز میں حالات حاضرہ جاننے کیلئے ایک ظہرانے کا اہتمام کیا ایک تو بیرون ملک پاکستانیوں کو حالات حاضرہ جاننے کا بہت شوق ہوتا ہے انہیں کیوں نہ گزشتہ 73 برس سے سمجھ نہ آئی کہ حالات حاضرہ سے آپ کے کام نہ لینے میں نہ دینے دوست زرمبادلہ کماؤ اور ملکی معیشت کی بہتری کے خواب دیکھو زرمبادلہ کے نتیجے میں حکومت سے کوئی مراعات نہیں بس ہر 6 ماہ میں حکمرانوں کا ایک بیان آجاتا ہے کہ پاکستانی تارکین وطن ہماری ریڑھ کی ہڈی ہیں ہمیں ان پر فخر ہے وغیرہ وغیرہ۔


ملک جانے کی صورت میں آپ کو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی سمجھا جائے اور گلی گلی،اداروں اداروں،دفتر دفتر لوگ پھن پھیلائے بیٹھے رہتے ہیں خیر میں اوور سیز پاکستانیوں کا ایک قدیم اور ہمیشہ رہنے والا دکھڑا لے بیٹھا بات ہو رہی تھی چوہدری شجاعت اور ”کرتا دھرتا“ کی انہوں نے استقبالیہ کے جواب میں ملک کے حالات بہتر بتائے اور مزید بہتر ہونے کا عندیہ دیا چونکہ حکومت ق لیگ کی تھی اور سر پر ہاتھ تھا جنرل پرویز مشرف کا اس لئے ان کا یہ کہنا بنتا تھا اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ ہماری جماعت میں جمہوریت ہے ہمیں اقتدار کی لالچ نہیں جبکہ ”کرتا دھرتا“ لوگوں نے مجھ سے کہا تھا آپ جماعت کے سربراہ ہیں مگر میں وزیراعظم نہ بنا اور اپنی جماعت کے میر ظفراللہ جمالی کو وزارت اعظمیٰ دلوا دی ان کی تقریر کے بعد کھانا ہوا بطور سٹیج سیکرٹری فرائض انجام دیتے ہوئے میں نے کہا کہ چوہدری صاحب ایک بات سمجھ نہیں آئی یہ ”کرتا دھرتا“ کون ہیں؟جنہوں نے آپ کو وزیراعظم بننے کو کہا تھا یہ کہہ کر مائیک ان کے ہاتھ میں تھما دیا۔

چوہدری صاحب نے ایک منٹ خاموشی رکھی پھر مائیک ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا ”چلو روٹی کھائے ،خان صاحب کا پروگرام مجھے مروانے کا لگتا ہے“،یہ کنفیوژن کا ہونا،استعفیٰ دینا پہلے یا لانگ مارچ پہلے،پی پی پی ڈیم ایم چھوڑ گئی،پہلے معافی مانگے پھر ساتھ ساتھ جدوجہد کریں گے یہ سب بہانے بازیاں ہیں دراصل اب سڑکوں کے احتجاج کی سیاست ہو نہیں سکتی بے شمار عوامل کی وجہ سے جن میں تحریک چلانے والے جو گزشتہ بھی اس ملک میں سربراہ رہے ہیں خاص طور پر پی پی پی کی حکومت کے زمانے میں ہی تو لفظ ”کرپشن“ کا لفظ متعارف ہوا تھا،لفظ کرپشن کی بدنما شکل ”مسٹر 10 پرسنٹ“ نیز ان کی اپنی حکومتوں کی کارکردگی کیا رہی ہے۔


پیپلز پارٹی جو وفاق میں برسراقتدار رہی اور آج بھی سندھ میں اقتدار پر براجمان ہے سالہا سال سے حکمرانی کرتے ہوئے اس کی قیادت نے کون سی ”دودھ کی ندیاں“ بہا دیں،رہی بات حکومت ن لیگ کی تو یہ بھی کرپٹ لوگوں کی جماعت ثابت ہوئی اب تحریک انصاف کی تفصیلات جاننے کیلئے ہمیں ایک دو سال اور انتظار کرنا پڑے گا۔انتخابات کے نتیجے میں اگر کوئی اور حکومت میں آیا تو نیب کے سربراہ کی خدمات لی جائیں گی جو کسی کونے سے وہ فائلیں نکال لائیں گے جن پر دھول جمع ہو چکی ہو گی پھر بغیر مضبوط ثبوتوں کے گرفتاریاں ہوں گی عوام ایک مرتبہ پھر کرپٹ لوگوں کی گرفتاری کے بعد ملکی خوشحالی کے خواب دیکھ رہی ہوں گی دراصل فواد چوہدری ایک بڑے سیاسی خاندان کے چشم و چراغ ہیں اور میڈیا پر جتنا وقت لے سکتے ہیں وہ پاکستان میں کسی کو کم ہی ملتا ہے دیگر وزراء کو بھی پریس کانفرنسز میں میڈیا کے تڑکے کیلئے فواد چوہدری کو ساتھ بیٹھانا پڑتا ہے چونکہ میڈیا کیلئے وہ پسندیدہ شخص ہیں۔

”چوں چوں کے مربے“ کی تشریح یوں بھی ہو سکتی تھی کہ ان ”تلوں میں تیل نہیں“ چونکہ آج پاکستان کی سیاست ایک نیا رُخ لے رہی ہے۔
ایک ایسا بیانیہ کھڑا کیا جا رہا ہے جس کے مطابق مزاحمت کرنا جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے دوسری طرف مزاحمت بھی آرام سے بیٹھ کر کی جا رہی ہے یہ سارا سیاسی ماحول پاکستان تحریک انصاف کے حق میں جاتا دکھائی دے رہا ہے اور اس چیز کا قوی امکان ہے کہ عمران خان اس ملک کے پورے 5 سال نہایت آرام سے گزاریں گے یہ نجومی کی بات نہیں سامنے موجود حالات ہیں باقی 5 سال کی باتیں بعد میں۔

ایک زمانہ تھا جب پی پی پی کی مزاحمت ہوتی تھی جس کا پرچم بیگم نصرت بھٹو نے بلند کیا تھا مگر بدقسمتی سے اب یہ جماعت مفاہمت کی علامت بنتی جا رہی ہے۔ سیاست میدان کے بجائے اب ڈرائنگ روم میں منتقل ہو چکی ہے۔ایک طرف آصف زرداری اور بلاول بھٹو مفاہمت کا پرچم بلند کئے ہوئے ہیں تو دوسری طرف شہباز شریف اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔میاں صاحب ویڈیو لنک سے مزاحمتی تحریک چلا رہے ہیں کمال ہے ویسے ان 13 برس میں اگر یہ 3 مقبول جماعتیں صرف جمہوریت کی بنیادوں کو ہی مضبوط کرتیں طلبہ،مزدور،عدلیہ اور میڈیا کو آزاد اور خود مختار بناتیں تو شاید طاقت کے توازن میں عوام کا کوئی عمل دخل ہوتا،سچ پوچھیں تو سویلین حکومتوں نے سویلین اداروں کو ہی کمزور کیا ہے۔

ایسے میں واحد امید پھر وہی نعرہ یاد آتا ہے حبیب جالب کا ”چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

PDM Choun Choun Ka Muraba is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 September 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.