وفاق کا روشنیوں کے شہر کیلئے گیم چینجر منصوبہ قابلِ تحسین

کراچی سرکلر ریلوے جیسے عظیم الشان منصوبے مکمل کرنا پیپلز پارٹی کی بنیادی ذمہ داری تھی

جمعرات 21 اکتوبر 2021

Wifaq Ka Roshiniyon Ke Shehar Ke Liye Game Changer Mansooba Qabil E Tehseen
آر ایس آئی
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سمجھتے ہیں کہ کراچی کے شہری ٹیکس،چندہ اور عطیات دینے میں پاکستان بھر میں سب سے آگے ہیں شاید اسی لئے سندھ حکومت نے کراچی میں بجلی فراہمی کے ذمہ دار،ادارے ”کے الیکٹرک“ کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے بجلی کے بلوں میں ”کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن“ یعنی ”کے ایم سی“ کیلئے ہر صارف سے کم از کم 100 سے لے کر 200 روپے ماہ وار اضافی ٹیکس وصول کرے تا کہ ”کے ایم سی“ کا بجٹ خسارہ پورا ہو اور وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہو سکے ایسا ہر گز نہیں ہے کہ سندھ کے دیگر شہری و دیہی علاقوں میں کراچی میونسپل کارپوریشن کی طرز پر بلدیاتی ادارے سرے سے موجود نہیں ہیں یا سندھ حکومت انہیں خسارے سے نکالنا نہیں چاہتی بلاشبہ وزیر اعلیٰ سندھ،اپنے صوبے کے ہر شہری و دیہی بلدیاتی ادارے میں فنڈز کی کمی پر بالکل ویسے ہی پریشان ہیں جو پریشانی انہیں ”کے ایم سی“ کے مستقبل کے متعلق لاحق ہے مگر چونکہ فی الحال انہیں سخاوت کے ساری خوبیاں فقط کراچی کے شہریوں میں ہی دکھائی دے رہی ہیں اس لئے بجلی کے بلوں میں ”کے ایم سی“ کیلئے خصوصی ٹیکس صرف اور صرف کراچی کی عوام سے وصول کیا جائے گا اب اس کے بعد بھی اگر کراچی کے لوگ یہ شکوہ کریں کہ سندھ حکومت ان کی پروا نہیں کرتی یا ان کے بارے میں اچھے سیاسی خیالات نہیں رکھتی،تو یقینا اسے اہلیان کراچی کی کوتاہ نظری کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا دوسری جانب سندھ حکومت نے جس بھرپور انداز میں کراچی کے مسائل کو حل کرنا اپنی اولین ترجیح قرار دیا ہوا ہے اس کا اندازہ صرف اس ایک بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے گزشتہ دنوں جب پیپلز پارٹی کے اہم ترین رہنما مرتضیٰ وہاب کو ایڈمنسٹریٹر کراچی کے اہم ترین عہدے پر تعینات کیا تو ساتھ ہی مرتضیٰ وہاب کو ”ترجمان سندھ حکومت“ اور ”وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر قانون“ کے اضافی عہدے اپنے پاس رکھنے کی بار دگر توثیق بھی فرما دی ۔

(جاری ہے)


کراچی پاکستان کا سب سے بڑا گنجان آبادی والا شہر ہے لہٰذا کراچی کے سیاسی،سماجی اور انتظامی مسائل کو حل کرنے کیلئے اس شہر کے ایڈمنسٹریٹر کو کارکردگی دکھانے کیلئے بھرپور فوکس کی ضرورت ہوتی ہے اور شاید اسی لئے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی کے نئے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب کو”ترجمان سندھ حکومت“ اور ”مشیر قانون“ کے عہدوں پر بدستور برقرار رکھا تا کہ مرتضیٰ وہاب بطور ایڈمنسٹریٹر کراچی زبردست توجہ اور فوکس کے ساتھ کراچی کے مسائل کو حل کر سکیں ہمارا خیال ہے کہ نئے ایڈمنسٹریٹر کراچی سے محکمہ ماحولیات سندھ کا قلمدان واپس لینے کا بھی بلاوجہ ہی تکلف کیا گیا اگر یہ عہدہ بھی مرتضیٰ وہاب کے پاس رہنے دیا جاتا تو بلاشبہ وہ بطور ایڈمنسٹریٹر کراچی کی ذمہ داریوں سے مزید لگن،توجہ اور فوکس کے ساتھ عہدہ برآ ہو سکتے تھے لیکن فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔

کراچی کی بہتری اور ترقی میں جو کمی سندھ حکومت اور ایڈمنسٹریٹر کراچی کی جانب سے باقی رہ جائے گی اسے وفاقی حکومت کے ”ممکنہ کھاتے“ میں ڈال کر پورا کروا لیا جائے گا جیسے کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ جس کا وزیراعظم عمران خان نے رواں ہفتہ کراچی میں سنگ بنیاد رکھ کر افتتاح کیا ہے بظاہر 18 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد کراچی میں ٹریفک کے مسائل کو حل کرنے کیلئے کراچی سرکلر ریلوے جیسے عظیم الشان منصوبے مکمل کرنا سندھ حکومت کی بنیادی ذمہ داری بنتی تھی۔


پیپلز پارٹی صوبہ سندھ میں اپنے طویل ترین اقتدار کے دوران کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے بارے اس قدر غور و فکر میں مصروف رہی کہ اسے عملی کام کرنے کا موقع ہی نہیں مل سکا یوں کراچی کے وسائل گھٹتے گئے اور مسائل بڑھتے گئے اب شہر کے بڑھتے ہوئے ان مسائل کو حل کرنے کیلئے کسی کو تو سامنے آنا تھا تو بالآخر قرعہ فال پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے نام نکلا ویسے بھی گزشتہ قومی انتخابات میں کراچی کا عوامی مینڈیٹ فقط پاکستان تحریک انصاف کو ہی ملا تھا اس لئے اگر سندھ حکومت کراچی کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے میں لیت و لعل سے کام لے تو ان مسائل کو حل کرنا وفاقی حکومت کی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ کے تحت کراچی کی ساحلی پٹی (کوسٹ لائن) کی تعمیر کے لئے ایک بہت بڑے ترقیاتی منصوبے سے بھی پردہ اُٹھا دیا ہے،واضح رہے کہ اس عظیم الشان منصوبے میں چین کی 3.5 ارب ڈالر کی براہِ راست سرمایہ کاری شامل ہو گی۔وفاقی حکومت کی طرف سے کراچی کے لئے اسے ایک گیم چینجر منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے۔


سی پیک میں شامل اس عظیم الشان منصوبے کا بنیادی مقصد سمندری بندرگاہ کی نئی برتھ کے ساتھ شہر کی سمندری پٹی کو ایک بڑے معاشی حب میں تبدیل کرنا ہے،المیہ یہ ہے کہ کراچی وطن عزیز کا سب سے بڑا تجارتی شہر ہے اور اس کا سمندر اور ساحل اس کی تجارتی سرگرمیوں کا بڑا مرکز ہیں لیکن یہاں جدید سہولتوں کا فقدان ہے بلاشبہ کوسٹ لائن ایک زبردست منصوبہ ثابت ہو سکتا ہے اس منصوبے کے تحت نہ صرف ماہی گیری کے لئے ایک نئی بندرگاہ تعمیر ہو گی اور ایک بندرگاہ پل کے ذریعے مینوڑا جزائر اور سینڈزپٹ ساحل کے ساتھ جوڑنے سے کراچی 3 اعلیٰ بندرگاہ رکھنے والا شہر بن سکتا ہے تاہم اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے پہلے کچھ بنیادی نوعیت کے اہم ترین امور کا خیال بھی رکھنا ہو گا مثلاً اس منصوبہ کی جگہ پر رہنے والی 5 لاکھ سے زائد آبادی کو دوسری جگہ منتقل کرتے وقت انہیں مناسب معاوضوں کی منصفانہ ادائیگی کرنا ازحد ضروری ہے۔

چونکہ اس منصوبے کا سب سے اہم اور مثبت پہلو چین کی براہِ راست سرمایہ کاری ہے اس لئے امید کی جا سکتی ہے یہ منصوبہ 5 سال کی مقررہ مدت کے اندر ہی کامیابی کے ساتھ مکمل ہو جائے گا اس منصوبہ کی تکمیل سے ناصرف پاکستان کی سمندری معیشت و تجارتی صلاحیت کے ساتھ ساتھ سمندری ماحولیاتی نظام بہتر ہو جائے گا بلکہ کراچی بھی حقیقی معنوں میں میٹروپولیٹن شہر بن جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Wifaq Ka Roshiniyon Ke Shehar Ke Liye Game Changer Mansooba Qabil E Tehseen is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 October 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.