
- مرکزی صفحہ
- مضامین و انٹرویوز
- خصوصی مضامین
- اقوام متحدہ میں پاکستان کے موٴقف پر عالمی برادری کے مثبت اشارے
اقوام متحدہ میں پاکستان کے موٴقف پر عالمی برادری کے مثبت اشارے
افغانستان کو سیاسی و معاشی بحران سے بچانے اور قیام امن کیلئے طالبان کو تسلیم کرنا ناگزیر ہو گیا
پیر 18 اکتوبر 2021

پاکستان صرف افغانستان کا پڑوسی ملک ہی نہیں ہے بلکہ افغان عوام کا دنیا بھر میں ایک انتہائی قابل اعتماد ”سفارتی وکیل“ بھی ہے۔وکیل بھی ایسا جس نے گزشتہ 75 برس میں ہمیشہ افغانستان کے مفادات کو اپنے سفارتی و سیاسی فوائد سے بھی زیادہ مقدم اور اہم سمجھا ہے یہاں بعض افراد کو یہ مغالطہ لاحق ہو سکتا کہ چونکہ پاکستان آج کل دنیا بھر میں طالبان حکومت کی پورے شد و مد کے ساتھ ”سفارتی وکالت“ کرنے میں مصروف عمل ہے تو شاید ہم اس سفارتی نسبت سے پاکستان کو افغان عوام کا ”سفارتی وکیل“ قرار دے رہے ہیں۔طالبان کی داستان تو فقط یہ ہی کوئی دو،تین دہائی قبل شروع ہوئی ہے جبکہ پاکستان 14،اگست 1947ء سے افغان عوام اور پاکستانی عوام کے نفع و نقصان کو ایک برابر سمجھتا آرہا ہے حالانکہ قیام پاکستان کے وقت بھارت نواز افغان قیادت نے پاکستان کو بطور ایک آزاد ملک کے تسلیم کرنے سے بھی یکسر انکار کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود پاکستان کی سیاسی قیادت نے افغان قیادت کے اس ”حرف انکار“ کو پرکاہ برابر بھی اہمیت نہ دی کیونکہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح بخوبی جانتے تھے کہ افغانستان کی سیاسی قیادت کی جیبیں بھلے ہی گاندھی اور نہرو کی تجوریوں سے ملتی ہیں لیکن افغان عوام کے دل اور دماغ پاکستانی عوام کے ساتھ یک جان دو قالب کی مانند باہم پیوست ہوئے ہیں،دلچسپ بات یہ ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور پاکستانی عوام کا افغان عوام کے متعلق کیا گیا یہ گمان بالکل درست ثابت ہوا اور جب 1948ء میں بھارت نے وادی کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے لئے خاموشی کے ساتھ اپنی فوجوں کو اتارا تو پاکستانی قیادت کے ایک اشارے پر افغان عوام اپنے پاکستانی بھائیوں کے ہمراہ بے سر و سامانی کے عالم میں بھارتی چنگل سے کشمیر آزاد کروانے کے لئے اپنے اپنے گھروں سے پروانوں کی مانند نکل پڑے بظاہر اس وقت کی بھارت نواز افغان قیادت کی ساری سفارتی ہمدردیاں اور سیاسی معاونت بھارتی افواج کے ساتھ تھیں لیکن افغان عوام کی تمام تر افرادی قوت عملی طور پر اپنے کشمیری بھائیوں کیلئے حاضر رہیں۔
(جاری ہے)
افغان عوام کی اپنی بساط سے کہیں آگے بڑھ کر پاکستان نے ہمیشہ مدد کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے جس کی سب سے بڑی علامت لاکھوں افغان مہاجرین کا پاکستان کی سرزمین پر آباد ہونا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذہب،تہذیب اور ثقافت کے علاوہ بھی ایک ہزار ایک ایسی مشترک عادات و اطوار پائی جاتی ہیں جو انہیں باہم مضبوطی کے ساتھ جوڑ کر رکھتی ہیں اور ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونے دیتی۔یاد رہے کہ ہمارے دیرینہ دشمن بھارت سمیت کئی بین الاقوامی ممالک کی خفیہ ایجنسیاں افغان عوام اور پاکستانی عوام کو ایک دوسرے کے خلاف متحارب دیکھنا چاہتی ہیں لیکن خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ 75 برس گزرنے کے باوجود آج تک افغانستان اور پاکستان کے مضبوط برادارانہ تعلقات میں ،نفرت اور دشمنی کی ایک دراڑ پیدا نہیں کی جا سکی دراصل ہمارے دشمنوں کو یہ سمجھ نہیں آتا کہ افغانستان اور پاکستان ایک سکے کے دو رخ،دریا کے دو کنارے ایک درخت کی دو شاخیں اور سب سے بڑھ کر دین اسلام کی دو بنیادی کیفیتوں جلالی و جمالی کا مظہر ہیں یعنی افغان قوم ذرا سخت مزاج ہے تو ہم تھوڑے نرم گرم اس لئے دنیا کے افق پر سب کچھ ہونا عین ممکن ہے لیکن افغانستان اور پاکستان کے درمیان مستقل خلیج کسی صورت قائم نہیں کی جا سکتی جہاں تک افغانستان اور طالبان حکومت کے معاملے میں مختلف عالمی فورمز پر کی جانے والی پاکستان کی سفارتی وکالت کا تعلق ہے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ عالمی سطح پر طالبان کے حق میں اختیار کیا جانے والا پاکستانی موٴقف اب تیزی سے پذیرائی حاصل کر رہا ہے اور طالبان حکومت سے لین دین کا تازہ امریکی وزارت خزانہ کا فیصلہ اسی حقیقت کا مظہر ہے۔امریکی وزارت خزانہ نے 2 لائسنسوں کے ذریعے سے امریکی حکومت،این جی اوز اور اقوام متحدہ سمیت مخصوص عالمی تنظیموں کو طالبان یا حقانی نیٹ ورک نیز طالبان حکومت کے ساتھ خوراک،ادویات اور طبی آلات کی برآمد سے متعلق محدود لین دین کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے بلاشبہ پاکستان کی سفارتی کوششوں سے حاصل ہونے والی یہ ایک بہت بڑی مثبت پیش رفت قرار دی جا سکتی ہے۔
افغانستان کی تعمیر و ترقی کے حوالہ سے جو مقدمہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اقوام متحدہ کے فورم پر پیش کیا اسے امریکہ سمیت دنیا بھی کی قیادت نے بھرپور توجہ سے سنا ہے اور آنے والے ایام میں افغان عوام کو عالمی برادری کی جانب سے بڑے ریلیف ملنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ اس ملاقات کے فوراً بعد پاکستان سمیت مختلف ممالک کی طرف سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے سلسلہ کا آغاز بھی ہو سکتا ہے کیونکہ فی الحال پاکستان جس ایک نکتہ پر دنیا بھر میں لابنگ اور سفارت کاری میں مصروف ہے وہ جلد از جلد طالبان حکومت کو زیادہ سے زیادہ ممالک سے تسلیم کروانے کا مشکل مشن ہے اگر اگلے چند ہفتوں میں پاکستان اپنے اس مقصد کو کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہو جاتا تو پھر افغانستان ایک بڑے معاشی اور سیاسی بحران سے بچ جائے گا دوسری جانب افغان عوام کی خوراک اور ادویات کی ضروریات پوری کرنے کے لئے وزیراعظم پاکستان کی خصوصی ہدایت پر نہ صرف فوری طور پر حکومت پاکستان نے افغانستان میں ضروریات زندگی کی اشیاء کی فراہمی کے نظام کو ہنگامی بنیادوں پر ازسر نو استوار کرکے مزید تیز رفتار اور موٴثر بنا دیا ہے بلکہ افغانستان سے آنے والے پھلوں اور سبزیوں پر سیلز ٹیکس بھی مکمل طور پر ختم کر دیا ہے تاکہ افغان تاجروں کو معاشی مشکلات سے نجات مل سکے جس کے بعد گزشتہ ہفتے سے افغانستان سے بڑی تعداد میں پھلوں اور سبزیوں سے بھری ہوئی سینکڑوں مال بردار گاڑیاں طور خم بارڈر کے راستے پاکستان پہنچنا شروع ہو گئی ہیں نیز محکمہ شہری ہوا بازی نے افغان ایئر لائن کو اسلام آباد ایئر پورٹ سے فلائٹ آپریشن کی باضابطہ اجازت بھی دے دی ہے اور اب ہفتے میں اس کی تین پروازیں اسلام آباد سے افغانستان کیلئے روانہ ہوا کریں گی۔افغانستان کے حوالے سے مزید اچھی خبریں یہ ہیں کہ پاکستانی حکام کے مشورے کی روشنی میں افغان وزارت داخلہ نے کروڑوں ڈالر مالیت کے اس فوجی ساز و سامان اور گاڑیوں کے سکریپ کی منتقلی اور سمگلنگ پر پابندی عائد کر دی ہے جس پر سکریپ کے تاجروں کی نظریں لگی ہوئی تھیں اس طرح اس سامان کا سرکاری بندوبست میں آجانا اب افغانستان میں کاروبار اور روزگار کے مواقع بڑھانے اور قومی خزانے کی صورتحال کو بہتر بنانے کا ذریعہ بنے گا۔
طالبان کو جدید عصری علوم و فنون سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے لئے پاکستان کے وفاق المدارس کے زیر اہتمام افغانستان میں مدارس کا قیام عمل میں لانے کا مستحسن فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے اور اس حوالے سے طالبان اور وفاق المدارس کی قیادت کے درمیان بات چیت میں اس منصوبہ کے تمام نکات پر اتفاق بھی طے پا گیا ہے جبکہ افغانستان میں ہسپتالوں اور یونیورسٹیوں کو بہتر طور پر چلانے کے لئے بھی پاکستان کی جانب سے سنجیدہ کوششوں کے آغاز کی سخت ضرورت ہے،واضح رہے کہ حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومت میں افغانستان میں بھارت سے اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں متنازعہ فی تعلیم دینے کے لئے کشاں کشاں آتے تھے اور افغان نوجوانوں اور بچوں کے اذہان میں پاکستان کے خلاف زہر گھولتے تھے اس لئے ضروری ہے کہ ماضی کے زہر کا تریاق تلاش کیا جائے اور اب طالبان حکومت شروع ہونے والے نئے دور میں افغانستان کی یونیورسٹیوں اور سکولوں میں پاکستان کے قابل اساتذہ کو درس و تدریس کی غرض سے بھیجا جائے اور اگر فی الفور یہ ممکن نہ ہو سکے تو ان افغانوں کو وہاں تعینات کرایا جائے جو ہماری یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔افغان مہاجرین کی بڑی تعداد عرصہ 30 برس سے پاکستان میں مقیم ہے اور ان میں سے بہت سے یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔پاکستان کی یونیورسٹیوں کے دروازے افغانستان کے طالب علموں پر کھولنے کی ضرورت بھی ہے تاکہ بھارت نے جو مذموم پروپیگنڈہ افغانستان میں پاکستان کے خلاف کیا ہے اس کا توڑ کیا جا سکے اہم بات یہ ہے کہ دنیا افغانستان کا اقتدار سنبھالنے والی طالبان حکومت کی کتنی مدد و معاونت کے لئے کمر بستہ ہوتی یہ یقینا پاکستان کے اختیار میں نہیں ہے لیکن پاکستان مشکل کی اس گھڑی میں افغان عوام کی دلجوئی کے لئے جو کچھ کر سکتا ہے وہ اسے بھرپور انداز میں کرنا چاہئے خاص طور پر پاکستان کے سماجی،فلاح اور نجی اداروں کو اپنے طور پر بھی افغانستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئے کیونکہ بہت سارے ایسے امور ہیں جو حکومت پاکستان کی دسترس سے باہر لیکن وہاں پاکستان کے سرکردہ افراد زیادہ بہتر انداز میں افغان عوام کی مدد و اعانت کر سکتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
مزید عنوان
Aqwam E Muttahida Mein Pakistan Ke Muaqaf Par Aalmi Baradri Ke Masbat Isharay is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 October 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.