تبدیلی سرکار کے 3 سال‘عوامی توقعات اور حکومتی ترجیحات

ملکی دولت پر شب خون مارنے والوں کا سرعام کڑا احتساب وقت کا تقاضا ہے

جمعہ 17 ستمبر 2021

Tabdeeli Sarkar Ke 3 Saal
قاضی سمیع اللہ
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت چوتھے برس میں داخل ہو چکی ہے اور پاکستان کو کئی داخلی اور خارجی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں معاشی مشکلات،ملکی سیاسی عدم استحکام،کورونا کی روک تھام کیلئے ویکسین کی قلت،پڑوسی ملک افغانستان میں خانہ جنگی اور اس کے ممکنہ اثرات سرفہرست ہیں جبکہ ملک کے جیو اکنامک اہداف کا حصول بھی ممکنات میں نظر نہیں آتا ہے اس کے علاوہ دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات ،خطے سے امریکی انخلاء کے بعد پیدا ہونے والا خلاء،چین کے ساتھ سی پیک سمیت دو طرفہ تعلقات کے معاملات بھی پیچیدہ ہیں۔

کشمیر کے مسئلے پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ثالثی کی توقع رکھنے والے اب 2 سال سے یوم استحصال منا کر خود کو تسلی دے رہے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر یہ معاملہ اب سرد خانے کی نذر ہو چکا ہے۔

(جاری ہے)

جوبائیڈن کی صدارت کے آغاز کے ساتھ ہی واشنگٹن کی ترجیحات بدل چکی ہیں اور مشیر قومی سلامتی کے اپنے الفاظ میں امریکی صدر اب بات کرنے کے بھی روا دار نظر نہیں آتے۔

ٹرمپ کے ساتھ پرجوش اور ذاتی تعلقات کے دعویدار پاکستانی حکام امریکہ میں بدلتی سیاسی صورتحال اور اس کی ترجیحات کو بھانپنے میں ناکام رہے اور اب یہ دھمکی دی جا رہی ہے کہ اگر امریکی صدر جوبائیڈن پاکستانی قیادت کو نظر انداز کرتے رہے تو پاکستان کے پاس اور بھی آپشن ہیں۔
افغانستان کی حالیہ صورتحال اور افغان جنگ کے حوالے سے عمران خان کا یہ کہنا ہے کہ وہ شروع دن سے ہی اس امر پر روشنی ڈال چکے ہیں کہ ”امریکہ کی جنگ ہماری جنگ نہیں ،ماضی کے حکمرانوں نے امریکہ کی مدد کی اور جواب میں اس نے 480 سے زائد ڈرون حملے کئے“ بلاشبہ وزیراعظم کو مشکل حالات میں حکومت ملی ہے اور سب سے بڑی مشکل یہ بھی تھی کہ انہیں اہل اور دیانتدار ٹیم بھی میسر نہیں تھی،”مانگے تانگے“ کے سیاستدان جن کی وفا داریاں ہر دور میں برائے فروخت رہیں جبکہ ایسے میں پارٹی کے ان دماغوں اور ذہنوں کی بھی قلعی کھل کر سامنے آگئی جو محکمہ جاتی اصلاحات اور معاشی میدان کے سقراط اور ارسطو تصور کئے جاتے تھے لہٰذا میری نظر میں حکومت کی 3 سالہ کارکردگی پر کسی قسم کی کوئی تنقید بنتی نہیں کیونکہ ایک تو ان کے پلے کچھ نہیں تھا اور دوسرا الجھے ہوئے امور کو سلجھانے میں کچھ وقت درکار تھا ان کٹھن حالات کے باوجود پھر بھی وزیراعظم پاکستان کی جانب سے حکومتی کارکردگی کی تشہیری مہم میں صنعتوں کی شرح نمو اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کو حکومت کی اعلیٰ اور مثالی کارکردگی گردانا گیا ہے جبکہ عوام اس اعلیٰ اور مثالی کارکردگی کے ثمرات سے فیضیاب ہونے سے قاصر رہے ہیں جو مسلسل مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں۔


تبدیلی سرکار کی 3 سالہ کارکردگی کیسی رہی اس بحث سے ہٹ کر عمران خان کی جانب سے خصوصی تقریب میں جو ”خطاب“ (ذرائع ابلاغ کی رپورٹنگ کے مطابق) کیا ہے وہ اپنی حساسیت کے اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے جس میں یہ برملا کہا گیا ہے کہ غلطیاں صرف سیاستدانوں سے نہیں سبھی سے ہوتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پیچھے پڑ جائیں اور برا بھلا کہا جائے۔

مافیا فوج کے پیچھے اس لئے پڑی ہے کہ وہ حکومت گرا دے،یہاں قابل غور امر یہ ہے کہ وزیراعظم کی طرف سے حقیقت پسندی کا مظاہرہ تو کیا گیا ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا کہ کیا فوج اور عدلیہ کی جانب سے اگر کوئی غلطیاں کی گئیں ہیں تو کیا کبھی ان کا ازالہ کیا گیا ہے۔ایک جانب ماضی کی غلطیوں کا ذکر تو دوسری جانب کسی ایک ادارے کو ریاست کا طاقتور ترین ادارہ ہونے کا تاثر دیا گیا جبکہ ماضی میں آئین کے ساتھ ہونے والی چھیڑ چھاڑ کی غیر معمولی روایت بھی ہمارے سامنے موجود ہے۔

اس میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ افغان جنگ ہماری نہیں بلکہ خالصتاً امریکہ کی جنگ تھی لیکن ماضی کے حکمرانوں نے امریکہ کی مدد کی۔وزیراعظم عمران خان اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کچھ مصلحت کا شکار ہوئے ہیں کیونکہ ماضی کے حکمرانوں کا نام لئے بغیر یہ بیان دیا گیا۔افغانستان میں جب سوویت یونین یعنی روس 1979ء کے خلاف امریکہ کی جنگ لڑی گئی تو اس وقت ملک میں کس کی حکومت تھی؟اور اس جنگ میں امریکہ کا اتحادی بننے کا فیصلہ کس نے کیا تھا؟اسی طرح نائن الیون 2001ء کے بعد جب افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف امریکہ کی جنگ شروع ہوئی تو اس وقت بھی کون برسراقتدار تھا اور اس جنگ میں بھی امریکی اتحادی ہونے کا شرف کس کو حاصل ہوا؟کیا قوم اور عوام کے منتخب نمائندوں کا ان جنگوں میں کوئی عمل دخل تھا؟۔


وزیراعظم عمران خان کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ملک کی لوٹی ہوئی دولت کا حساب لیں گے اور اس ضمن میں ماضی کے سیاسی حکمرانوں کے خلاف احتسابی عمل بھی جاری ہے لیکن کیا یہ احتسابی عمل غیر جانبداری کے ساتھ کیا جا رہا ہے؟۔تبدیلی سرکار اپنی 3 سالہ کارکردگی کی تشہیر کر رہی ہے جبکہ عوام تبدیلی کے نعرے اور تحریک انصاف کی حکومت کو 3 سال سے جھیل رہے ہیں لہٰذا ایسے میں وزیراعظم عمران خان کو اپنی حکومت کی 3 سالہ کارکردگی کی تشہیر کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی نجانے کہاں سے اور کیوں کر وزیراعظم عمران خان کو یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنی حکومت کی کارکردگی کی تشہیر کریں جبکہ ملک کے ہر گوشے اور چوک میں ہر روز تبدیلی سرکار کی کارکردگی کا ڈنکا پیٹا جا رہا ہے۔

دفاعی ادارے ریاست کی بقاء کے ضامن ہوتے ہیں اور اداروں کا باہمی احترام ہی ریاست کے استحکام کی ضمانت ہے لہٰذا جب ماضی کے حکمرانوں سے ملک کی لوٹی ہوئی دولت کا حساب لینے کی بات کی جاتی ہے تو ایسے میں صرف سیاسی حکمرانوں کو ہی کٹہرے میں کیوں لایا جاتا ہے؟حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ قیام پاکستان کے بعد ملکی سلامتی اور خوشحالی پر جس نے بھی شب خون مارا اسے سرعام کٹہرے میں لایا جائے تاکہ آئندہ سے کسی کو یہ جرات نہ ہو کہ وطن عزیز سے غداری کی جائے یقینا یہ ماضی کے سیاسی حکمران دودھ کے دھلے نہیں ہیں،یہ خوش آئند امر ہے کہ غلطی سدھاری جا رہی ہے لیکن مقام افسوس کہ وہ بھی ادھوری۔۔۔اور اگر یہ ایسے ہی ادھوری رہتی ہے تو پھر اسے ”ڈھونگ“ سے ہی تعبیر کیا جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Tabdeeli Sarkar Ke 3 Saal is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 September 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.