خلیج کا تیل کسی وقت بھی آگ پکڑ سکتا ہے

الجزیرہ‘ اخوان اور حماس کی آڑ میں ترکی مشرق وسطیٰ میں اہم کردار کرنے کیلئے تیار ہو گیا

منگل 20 جون 2017

Khaliji Mumalik Ka Tail Kisi Waqat Bhi Aag Pakar Sakta Hai
محمد انیس الرحمن:
اک بے بسی کا نظارہ ہے اس طرح کہ مشرق وسطیٰ میں تاریخ اپنے آپ کو پھر دہرانے لگی ہے۔پہلی جنگ عظیم کے بعد جب مغرب نے مشرق وسطی کا پہلا نقشہ ترتیب دیا تھا۔تو اس سے پہلے عربوں کو ترکوں سے لڑایا گیا تھا اور اب کی بار پہلے عربوں اور ایران کے درمیان خطے کی بالادستی کی کشمکش شروع کروائی گئی جس کی لپیٹ میں پہلے عراق،پھر شام اور یمن اور بحرین آئے یوں عالم عرب کا نصف سے زائد حصہ شعلوں کی نذر ہوگیا اور پھر سعودی عرب اور قطر کا تنازعہ کھڑا ہوگیا جس نے عربوں سمیت باقی اسلامی دنیا کو دوگروپوں میں تقسیم کردیا ہے۔

یہ صورتحال اس وقت مزید خراب ہوتی جارہی ہے جب افغانستان میں تشدد کی کاروائیوں میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے۔

(جاری ہے)


عالم عرب میں جس وقت عرب اسپرنگ کا آغاز ہوا اور تیونس کے بعد باقی عرب ملک بھی اس کی لپیٹ میں آنے لگے تو امریکہ کی سرکردگی میں مغرب نے فیصلہ کیا تھا کہ اس عوامی انتفاضہ کے آخری مرحلے میں اسے اپنے صہیونی دجالی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے گا کیونکہ عوامی بغاوت کے نتیجے میں جن قوتوں نے عالم عرب میں اقتدار تک پہنچنا تھا وہ تمام کی تمام اسلامی تحریکوں سے وابستہ رہی تھیں اور اس جانب اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ستر کی دہائی کے بعد اسلامی سیاسی تحریکیوں کے مقابل جر لبرل سیاسی تحریکیں تھیں وہ وقتا فوقتا دم توڑتی چلی گئیں تھیں تمام شمالی افریقہ سے لیکر مشرق وسطیٰ تک کہیں بھی کوئی لیبرل سیاسی تحریک پنپ نہ سکی تھی۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ مصر،تیونس،لیبیا،شام اور یمن تک میں فوجی آمر تھے۔جنہوں نے اسلامی تحریکوں کا چار دہائیوں تک قوت سے دبایا اس کام کے لئے ان ملکوں کی فوجی قوت ان کے ساتھ تھی جبکہ عوامی سطح پر کسی لیبرل سیاسی جماعت کو اس ماحول میں پنپنے کا موقع ہی نہ مل سکا کیونکہ یہی فوجی آمر اپنے مسلط کردہ نظام کو لبرل سیاسی نظام کہتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ فوجی آمریت والے عرب ملکوں میں اگر کسی نے اپوزیشن کا کردار ادا کیا تھا تو وہ اسلامی سیاسی تحریکیں تھیں جو کسی نہ کسی طرح اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے تھیں۔

اس لئے مغرب کو نظر آرہا تھا کہ جس وقت عرب اسپرنگ کے ذریعے عرب ملکوں کے فوجی آمروں کا تختہ الٹا جائے گا تو وہاں جمہوریت اور عام انتخابات کے زریعے بھی حکومت سازی ہوئی تو اسلامی سیاسی قوتیں ہی اس خلا کر پرکریں گی۔یہی وجہ ہے کہ تیونس کے واقعے کے بعد مصر میں پھیلنے والی سیاسی کشمکش کو امریکہ سمیت مغرب کے کسی ملک نے روکنے کی کوشش نہ کی۔

اس وقت مغرب کے ”اے پلان“کے مطابق پہلے یہاں اسلامی سیاسی قوتوں کو برسر اقتدار آنے دیا جائے گااس کے بعد دنیا میں دجالی صہیونی میڈیا کے ذریعہ اسلامی انتہا پسندی کا خوف پیدا کیا جائے گا جس کے تناظر میں دنیا کو اس بات پر قائل کیا جائے گا کہ اگر اس بڑھتی ہوئی اسلامی انتہا پسندی کا نہ روکا گیا تو شمالی افریقہ سے لیکر شام تک برسراقتدار اسلامی قوتیں اسرائیل کے وجود کو ختم کردیں گی اس کے بعد مغرب میں قیام پذیر لاکھوں مسلمانوں کو مغربی نظام کے خلاف کھڑا کردیا جائے گا اس لئے اسرائیل کو اپنے دفاع کے حق کے طور پر ان کا قلع قمع کرنے کا پورا حق ہے۔

اگر ایسا ہوتا تو یقینا امریکہ سمیت پورا مغرب یعنی نیٹو مشرق وسطیٰ کی اینٹ سے اینٹ بجا کر خطے کے امور براہ راست اسرائیل کے ہاتھ میں دے دیتا لیکن یہ پلان شام پر آکرنا کا ہوگیا جس وقت روس نے آگے بڑھ کر اپنی فوجیں شام میں داخل کردیں اور مسئلہ الجھ گیا۔کیونکہ تاحال امریکہ اور اسرائیل روس سے براہ راست ٹکر لینے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔اب یہاں سے پر اکسی وار کا آغاز ہوتا ہے۔


اس تمام مرحلے یعنی پراکسی وار کے شعبے میں عالم عرب تقریبا نہتا تھا کیونکہ عربوں کی پراکسی قوتوں کا امریکہ سمیت مغرب کو سوویت یونین کے افغانستان کی جنگ کے حوالے سے تجربہ تھا کیونکہ سوویت یونین کی باقاعدہ فوج کے سامنے افغان مجاہدین کے علاوہ عربوں کی پراکسی قوتوں کو لڑایا گیا تھا۔امریکہ اور مغرب اس بات سے واقف تھے کہ یہ پراکسی قوتیں اگر سوویت یونین کو افغانستان میں شکست سے دوچار کرسکتی ہیں تو آنے والے دور میں یہ امریکہ اور یورپ کو بھی علاقے میں قدم نہیں جمانے دیں گی اس لئے انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کروا کر پہلے عرب حکومتوں سے اپنے ہی پراکسی ہاتھ تڑوا دیئے گئے۔

اس سارے دورانیے میں فائدہ کس کا ہوا؟امریکہ اور اسرائیل کا۔۔۔۔۔
اب کھیل کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے یعنی ایران اور اس کی پراکسی قوتوں کو خطے میں کھل کر کھیلنے کا موقع مہیا کرنا جن کی بنا پر شام سے لیکریمن تک جنگ کی آگ بھڑک اتھی۔وہ قوتیں جن کے ہاتھوں میں امریکہ سے لیکر یورپ کا حقیقی اقتدار ہے انہوں نے اوباما کے مہرے کو آگے کر کے ایران سے معاہدے کی داغ بیل ڈالی جس نے ایرانی انتظامیہ کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیا کہ امریکہ جیسی قوت بھی اس کے آگے سرنگوں ہو گئی ہے او ر اس قوت کو خطے میں تسلیم کر لیا گیا ہے لیکن یہ ایک سراب تھا جو اوباما انتظا میہ کے ساتھ ہی ہوا میں تحلیل ہوگیا اس وقت تک ایران کی پراکسی قوتیں لبنان کے بعد عراق،شام اور یمن تک پھیل چکی تھیں۔

جس کا مغرب کو ایک فائدہ یہ ہوا کہ تمام عالم عرب نے ایران کو اسرائیل سے زیادہ اپنے وجود کے لئے خطرہ تصور کرنا شروع کردیا۔دوسری جانب ان مہنگی ترین پراکسی جنگوں نے ایرانی اقتصادیت کو نچوڑ کر رکھ دیا جس کی وجہ سے عوام میں بے چینی کے آثار نمودار ہونے لگے۔یہی امریکہ اور اسرائیل کی بھی منشا ہے جسے انہوں نے آنے والے وقت میں استعمال کرنا ہے۔


مصر میں حسنی مبارک تیس سالہ”خدمات“ کو نظر انداز کرکے مغرب نے مصر کی سیاسی صورتحال کو مخالف سیاسی قوتوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا تھا یقینی بات تھی کہ اس صورتحال کے نتیجے میں انتخابات کے ذریعے اخوان المسمون کے پاس ہی اقتدار جانا تھا۔اس مرحلے پر مصر کا اقتدار میں لینا مصری خوانیوں کی سب سے بڑی غلطی تھی جس کا خمیازہ انہوں نے بعد میں بھگتا ۔

اخوان المسلمون سے وابستہ صدر مرسی کا اقتدار میں آنا باقی عرب ملکوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے کافی تھا۔ایک بات یاد رہے کہ تمام عالم میں مصر کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسی یورپ میں فرانس کی۔جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر فرانس کو چھینک آجائے تو تمام یورپ کو زکام ہو جاتا ہے یہی صورتحال مصر کی مشرق وسطیٰ میں ہے۔اس کے علاوہ مشرق وسطی میں اسلامی تحریکوں کا مرکز بھی مصر ہی کہلایا جاتا ہے۔

باقی عالم عرب کی جتنی بھی اسلامی سیاسی تحریکیں ہے وہ یا تو اخوان المسلمون کی شاخیں ہیں یا اسی کے افکار کے بطن سے انہوں نے جنم لیا ہے۔اس لئے یہ ضروری تھا کہ اسلامی سیاسی تحریکوں کی کمر توڑنے کے لئے مصر کے اخوان کو نشانِ عبرت بنایا جائے۔کیونکہ مصری اخوان مقبوضہ فلسطین کی اسلامی تحریک حماس کے لئے باعث تقویت تھے اور اب تو قاہرہ میں اخوانیوں کا اقتدار تھا اس لئے اسے اسرائیل کے وجود کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دینے کے بعد اور ایران کے ساتھ راہ رسم بڑھانے کا الزام عائد کرکے مصری فوجی ڈکٹیٹر عبدالفتح السیسی کا سازباز کے ذریعے اخوانیوں کے اقتدار پر چڑھا و دیا۔

یوں وہ کام جو تیس برس تک حسنی مبارک نہ کرسکا سیسی نے کردکھا یا۔دوسری جانب خلیجی عرب ریاستوں میں یہ خوف پیدا کیا گیا کہ اخوانی اوران کی ہم فکر سیاسی اسلامی تحریکیں اب یہاں اپنے پیر مظبوط کر کے پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی انقلابی سوچ کے دائرے میں لینے کی کوشش کریں گے۔اس تمام صورتحال نے پورے مشرق وسطی میں اخوانی اور دیگر اسلامی سیاسی تحریکوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی صورتحال پیدا کردی لیکن اس کے ساتھ ساتھ خلیجی عرب ریاستیں شام کے معاملے میں معلق ہو کررہ گئیں۔

اگر وہ بشار حکومت کا ساتھ دیتے تو ایران کے پیر مضبوط ہوتے اور اگر باغیوں کا ساتھ دیتے تو کامیابی کی صورت میں اخوان کے نظریات سے متاثر حلقے حکومت بنالیتے۔اس صورتحال کا خمیازہ شام کے لاکھوں بے گناہ مسلمانوں نے بھگتا۔
اس سارے معاملے کے بعد اب اس خونی کھیل کا تیسرا حصہ شروع ہوا چاہتا ہے۔یہ عربوں کا باہمی اختلاف جس کی ابتدا قطر تنازعہ سے کی گئی ہے اور پورے خطے میں نئی گروپ بندی جاری ہے۔


ریاست قطر ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن وسائل کے لحاظ سے پورے خلیج میں مالا مال ریاست تصور ہوتی ہے جس کی فی کس آمدنی خلیج میں سب سے زیادہ تصور کی جاتی ہے ۔قطر ایک چھوٹا ملک ضرور ہے لیکن پالیسی کے لحاظ سے اس نے اپنے سائز سے بڑے جوتے میں پیر ڈالنے کی ہمیشہ کوشش کی ہے ۔اپنے آپ کو ایک ماڈرن لبرل ریاست تصور کرتا ہے اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے ساتھ اس کے ”مثالی“
سفارتی تعلقات ہیں۔

قطر اسرائیل کے درمیان تجارتی تعلقات کی ابتدا 1996 ء میں ہوئی تھی۔اس کے علاوہ تاریخی طور پر یمن سے یہودیوں کو اسرائیل منتقل کرنے کا کام بھی دوحہ کے ذریعے ہوا تھا۔موجودہ تنازعے کی ابتدا قطری حکومتی ویب سائٹ پر قطری امیر تمیم بن حمد الثانی کے اس بیان سے ہوئی تھی جس میں انہوں نے ایران کو اسلامی قوت قرار دیا اوراسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط بیان کئے۔

قطری حکومت کا موقف ہے کہ اس کی حکومتی ویب سائٹ کو ہیک کی گیا تاکہ قطر اور دیگر عرب ملکوں کے درمیان تنازعہ کھڑا کیا جائے لیکن سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ملکوں نے قطرحکومت کو موقف مسترد کرتے ہوئے کہا کہ قطر دہشت گرد ی کی حمایت اور انتہا پسند افراد کی میزبانی کرتا ہے ۔ان کا اشارہ دوحہ میں اخوان المسلمون کے لیڈروں کو پناہ دیئے جانے کی جانب تھا دوسری جانب حماس کی بھی مذمت کی جاتی رہی ہے۔


لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ اصل اختلافات کیا ہیں اس میں سب سے پہلے الجزیرہ نیوز چینل اس کے بعد اخوان اور حماس ہیں۔اس ساری جلتی پر تیل کاکام امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے دورہ مشرق وسطیٰ اور بیانات نے دیا۔
اس حوالے سے اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ ترکی کھل کر قطر کی مدد کو آگیاہے۔چند ماہ پہلے تک اس کے صرف چھ سو فوجی قطر میں تعینات تھے لیکن اب ترک پارلیمنٹ سے بل منظور کروانے کے بعد پانچ ہزار سے زائد ترک فوجی قطر میں ہوں گے۔

جبکہ امریکہ کا سینٹ کام کا فوفی اڈہ بھی دوحہ کے قریب واقع ہے۔اب اگر امریکہ سینٹ کام کا اڈہ وہاں سے منتقل بھی کرتا ہے تو اسے کم سے کم ایک ڈیڑھ برس کا عرصہ درکار ہوگا۔دوسری جانب روس نے فی الحال براہ راست مداخلت کا عندہ تو نہیں دیا لیکن عرب صحافتی ذرائع کہہ رہے ہیں کہ کسی بھی عسکری مہم جوئی کی صورت میں روس بھی اس جنگ میں کود سکتا ہے۔

ہم پہلے بھی کہتے رہے ہیں کہ اس سارے کھیل کا اصل ،مقصد روس کو میدان میں لانا اور عربوں کے وسائل کو آخر تک نچوڑ لینا ہے۔
روس کو مشرق وسطیٰ کے معاملات میں مداخلت روکنے کے لئے نیٹو اور امریکہ انتہائی خاموشی کے ساتھ بلقان کے راستے روس کے قریب فوجیں اکٹھا کر رہے ہیں بھاری اسلحے کی ترسیل کئی ماہ سے جاری ہے۔ روس اور چین کے بڑھتے ہوئے معاشی اور عسکری قدموں کو روکنے کے لئے بڑا معرکہ کسی وقت بھی شروع ہو سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Khaliji Mumalik Ka Tail Kisi Waqat Bhi Aag Pakar Sakta Hai is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 June 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.