معاشی ترقی میں علم کی اہمیت

کوئی ملک یا معاشرہ کسی بھی قسم کی ترقی کا تصور ہی نہیں کرسکتا جب تک وہ معاشرے یا قوم علم کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرلیتے اور اس کو اپنے ملک کی ترقی کیلئے ناگزیر نہیں سمجھ لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اگر ہم جائزہ لیں تو وہی ملک ترقی کی بلندیوں پر نظر آتے ہیں جنہوں نے علم کی اہمیت کو تسلیم کیا۔

جمعرات 20 جولائی 2017

Muashi Taraqi Main Ilm Ki Ehmiyat
شیخ منظر عالم:
کوئی ملک یا معاشرہ کسی بھی قسم کی ترقی کا تصور ہی نہیں کرسکتا جب تک وہ معاشرے یا قوم علم کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرلیتے اور اس کو اپنے ملک کی ترقی کیلئے ناگزیر نہیں سمجھ لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اگر ہم جائزہ لیں تو وہی ملک ترقی کی بلندیوں پر نظر آتے ہیں جنہوں نے علم کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ حالانکہ بحیثیت مسلمان ہم جانتے ہیں کہ ہمارے نبی کریم ﷺ نے آج سے چودہ سو سال پہلے علم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ" علم حاصل کرو چاہے اس کیلئے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے " ۔

پھر اگر ہم دنیا کے فلاسفرز کو دیکھیں چاہے وہ جرمنی کاایمانیول کینٹ ہو،فرانس کا رینے ڈیکارڈ ہو ، اسکاٹ لینڈ کا ایڈم اسمتھ ہو، یونان کا افلاطون اور ارسطو ہو، ان کی فلاسفی کی بنیاد ہی علم کی اہمیت پر تھی۔

(جاری ہے)

اسی طرح اگر مسلم دنیا پر نظر دوڑائیں تو ہمیں ابن سینا ہوں، ابونصر الفارابی ہوں، ابو حامد الغزالی ہوں ،فخر الدین الرازی ہوں، ابن خلدون ہوں ، ابن طفیل ہوں، علامہ اقبال ہوں یادیگر ہوں ، یہ تمام لوگ بھی علم کی ہی وجہ سے تاریخ کے روشن ستارے ہیں۔

اسی لئے جب تک مسلم امہ علم کے ساتھ وابستہ رہی دنیا پر مسلمانوں نے حکمرانی کی اور آج بھی تاریخ میں بغداد کے کتب خانے اس بات کے گواہ ہیں دشمنوں نے سب سے پہلے ان ہی پرحملہ کیا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ علم وہنر کے خزانوں کو تباہ کئے بغیرکسی بھی قوم کی طاقت ختم نہیں کی جاسکتی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انسانی ترقی میں علم کی کیا اہمیت ہے خصوصاً جدید معاشی ترقی علم کے بغیر ناممکن ہے۔


اسلامی تاریخ میں ہمیں بڑے نامی گرامی علم دان ،سائنسدان ، اکنامسٹ اور سوشل سائنٹسٹ ملتے ہیں جہاں عمر خیام، ابن سینا، شرف الدین التوسی ، ابو نصر منصور اور الخوارزمی جیسے آسٹرونومربھی پیدا ہوئے۔
اسکے علاوہ نیورولوجی کے بانی ابن زھر، سائیکولوجی کے بانی ال کندی، مینٹل ہیلتھ کے بانی احمد بن البلغی ، نیوروسرجری کے بانی ابو قاسم الزھراوی ،جدید کیمسٹری کے بانی جابر بن حیان، مشہور تاریخ دان و اکنامسٹ ابن خلدون،الماوردی ، ناصر التوسی، ابن تیمیہ اور ابن النفیس جیسے معاشی ماہرین پیدا ہوئے۔

مگر اسکے بعد ہم نے علم کے حصول کی طرف دھیان نہ دیا مگر اغیار نے علم کی اہمیت اور افادیت کو سمجھا اسی لئے گذشتہ کئی صدیوں سے غیر مسلم تعلیمی میدان میں ہم سے بہت آگے رہے ہیں اور گذشتہ کئی صدیوں سے بے شمار جدید ایجادات کیلئے ہم غیر مسلم کے مرہون منت ہیں۔اسی کا نتیجہ اب یہ ہے کہ سینٹر فار یونیورسٹی رینکنگ کی 2017کی رپورٹ کے مطابق آج دنیا کی 524 قابل اور مستندیونیورسٹیوں میں سے کوئی ایک یونیورسٹی کسی اسلامی ملک کی نہیں ہے جبکہ 525ویں نمبر پر ترکی کی مڈل ایسٹ ٹیکنیکل یونیورسٹی ہے اور پاکستان کی قائد اعظم یونیورسٹی کا 889واں نمبر ہے۔


کسی ترقی یافتہ ملک کی تو بات ہی کیا ہے ہم تو تعلیم کے معاملے میں اپنے آس پاس کے ممالک سے بھی بہت پیچھے ہیں جیسے خواندگی کی شرح مالدیپ میں 99.3 فیصد،ملائشیاء میں 94.6 فیصد، انڈونیشیاء میں 93.9 فیصد،سری لنکا میں 92.6فیصد، ایران میں 86.8 فیصد، بھارت میں 72.1فیصد، بھوٹان میں 64.9فیصد، نیپال میں 64.7فیصد اور بنگلہ دیش میں 61.5فیصد ہے۔ اس طرح پاکستان شرح خواندگی میں دنیا کے 194ممالک میں 180ویں نمبر پر کھڑا ہے یعنی صرف دنیا کے چودہ ممالک سے پاکستان شرح خواندگی کے معاملے میں قدر ے بہتر ہے۔

چونکہ تجربے نے ثابت کیا ہے کہ علم کے بغیر کسی شعبہ میں انسان ترقی و تعمیرکا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس تناظر میں معاشی واقتصادی ترقی کیلئے بھی اگر جدید علوم ، جدید ٹیکنالوجی اور تحقیق ومعلومات نہ ہوں تو آپ آگے نہیں بڑھ سکتے اس لئے ہمیں ہر شعبے میں جدید علوم حاصل کرنا بہت ضروری ہے چاہے وہ نیچرل سائنس ہو، انجینئرنگ وٹیکنالوجی ہو، میڈیکل و ہیلتھ سائنس ہو ، ایگریکلچرل سائنس ہو یا سوشل سائنس ہو۔

ہمیں اپنی درس گاہوں میں ان تمام علوم اور انکی تمام ذیلی شاخوں پرحقیقی معنوں میں علم وتحقیق کے دروازے کھولنے ہونگے۔ یوں تو سائنس کی ہر شاخ اور انکی ذیلی شاخوں کی جدید تعلیم اورآگاہی بہت ضروری ہے اور ہمیں ہنگامی بنیادوں پر ہر اس جدید علم کے حصول کو یقینی بنانا چاہیے جس سے پاکستانی معیشت بہتر اور ترقی یافتہ ہو۔ مثال کے طور پرہمیں ایگریکلچرل سائنس کی تعلیم اور ترویج پر انتہائی تیزی سے کام کرنا چاہیے کیونکہ جس تیزی سے آبادی میں اضافہ ہورہا ہے ، موسم میں تغیرات ہورہے ہیں، غذائی قلت ہورہی ہے اور پانی اور پانی کے ذخائر کی کمی واقع ہورہی ہے اس کیلئے ایگریکلچرل سائنس کی تعلیم ازحد ضروری ہے کیونکہ ہمارے ہاں اکثرکاشتکار اور کسان حضرات جدید تعلیم اور ٹیکنالوجی سے نابلد ہیں اسی لئے پرانے دیسی طریقوں کو استعمال کرتے ہیں اور اپنی زمین سے مناسب پیداوار حاصل نہیں کرپاتے۔

ایگریکلچرل سائنس کی جدید تعلیم سے ناصرف زیادہ پیداوار ہوگی جس سے غذائی قلت کا خطرہ نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کاشتکاروں کو زیادہ منافع حاصل ہوگا بلکہ اضافی زرعی پیداوار کو برآمد کرکے پاکستان کثیر زرمبادلہ حاصل ہوسکتا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں کچھ زرعی یونیورسٹیاں ہیں مگر اس سے متوقع فوائد حاصل نہیں ہوپارہے۔زرعی سائنس کی جدیدتعلیم کی آگاہی کی وجہ سے ہم اپنی فصلوں کی فی ایکڑ پیداوارکئی گنا بڑھا سکتے ہیں۔

USDA کی سال 2017کی رپورٹ کیمطابق رواں سال چین کی کاٹن کی پیداوار3.05ملین ہیکٹر رقبے پر 24ملین بیلز رہی جبکہ پاکستان کی کاٹن کی پیداوار 2.85 ملین ہیکٹر رقبے پر 9.3 ملین بیلز رہی یعنی چین کی فی ہیکٹر پیداوار پاکستان کی فی ہیکٹر پیداوار سے تقریباً 58فیصد زیادہ ہے۔ اسی طرح پاکستان کئی فصلوں کی فی ہیکٹر پیداوار کے مقابلے میں دنیا میں کافی پیچھے ہے۔

مگر یہ بھی المیہ ہے کہ ہم ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود زراعت کے شعبے کی ترقی و ترویج کیلئے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھا رہے یہی وجہ ہے کہ اس شعبے میں بھی مسلم دنیا یا پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی کاکوئی نمایاں مقام نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مسلم سائنسدان اس ضمن میں کوئی کارہائے نمایاں انجام دے رہا ہے جبکہ اس شعبے میں زیادہ تر غیرمسلم افراد ہی شامل ہیں جن میں روبرٹ بیک ویل، نورمن بورلوگ، لوتھر بربینک،سرالبرٹ ہاورڈ اور دیگر نمایاں ہیں۔

جدید علوم کے کئی اور شعبوں اور ان کی ذیلی شاخیں ہیں جن کا سیکھنا بہت ضروری ہے مگر کالم کی طوالت کی غرض سے میں اس پر اپنے آئندہ کسی کالم میں روشنی ڈالوں گا۔
ہمارے لئے المیہ ہے کہ ہم نے ملک کی مجموعی اقتصادی ،معاشی ، علمی اور تحقیقی منصوبہ بندی ہی نہیں کی جسکی وجہ سے ہمارے ہاں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جو طریقہ کار رائج ہے اس میں سب کچھ ہورہا ہے مگر صحیح معنوں میں کوئی علم حاصل کرنے ولا انسان نہیں نکل رہا۔

پر ہمارے ارباب اختیار کے نزدیک پاکستان تعلیمی ،تحقیقی ،معاشی، اقتصادی ، سیاسی اور معاشرتی طور پر دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے جبکہ عملی طور پرپاکستان ہر شعبے میں تنزلی کی جانب رواں دواں ہے اس لئے ہمیں اپنے ملک کی معاشی ،اقتصادی ، سماجی اور معاشرتی ترقی کیلئے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مروجہ طریقہ تدریس کو تبدیل کرنا ہوگا اور طریقہ تدریس میں تحقیق ، جستجو اور نت نئی تعمیری ترغیبات شامل کرنی ہوں گیں۔

یہ تعلیم اور جدید ٹیکنالوجی کا ہی کمال ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک اپنی ملکی معیشت کو بہتر سے بہترین بناچکے ہیں کیونکہ آج وہی قومیں ترقی کررہی ہیں جنہوں نے روایتی شعبوں کے علاوہ اعلیٰ ٹیکنالوجی کی صنعتوں ، تحقیق و نمو اور سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعلیم عام کی اور اس میں سرمایہ کاری کی ہے۔ یورپی ممالک تو ایک طرف رہے تھائی لینڈ، کوریا ، ملائشیاء اور سنگاپور جیسے ممالک بھی تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں جدید علوم کے حصول اور اس پر سرمایہ کاری کرنے کی ہی وجہ سے آج دنیا میں اپنا ایک مقام بناچکے ہیں اور معاشی و اقتصادی طور پر ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوچکے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Muashi Taraqi Main Ilm Ki Ehmiyat is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 July 2017 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.