نا فرمان بچے،آخر کیوں؟

والدین اگر اپنے بچوں کی گستاخی اور نا فرمانی کے پیچھے کارفرما محرکات کا جائزہ لے لیں تو یہ مسائل کافی حد تک حل ہو سکتے ہیں

ناصر محمود بیگ بدھ 8 اپریل 2020

nafarman bachay, aakhir kyon ?
ہمارا بچہ بہت ضدی ہے․․․․․․ہمارا بچہ اکثر دوسرے بہن بھائیوں سے لڑتا جھگڑتا رہتا ہے․․․․․ہمارا بچہ ہماری بات ہی نہیں سنتا ،وہ بس اپنی بات ہی منواتا ہے۔اس طرح کے جملے آپ کو اکثر والدین سے سننے کو ملیں گے ۔آج جس ماں سے پوچھ لیں وہ یہی کہے گی کہ اس کے بچے تو اس کی بات ہی نہیں سنتے۔مگر یہ تو گھر گھر کی کہانی بن چکی ہے ۔ماؤں نے بچوں سے کوئی کام لینا ہو تو ان کو یہی ڈراوا دیتی ہیں کہ میں تمہاری اسکول ٹیچر کو تمہاری شکایت لگاتی ہوں۔

اگر تم نے میرا کہنا نہ مانا تو میں تمہیں یہ سزا دوں گی۔ان شکایات کا اگر خلاصہ کریں تو ہم بزبان والدین یہ کہہ سکتے ہیں کہ ”بچے ہمارے دور کے نا فرمان ہوگئے“۔والدین اگر اپنے بچوں کی گستاخی اور نا فرمانی کے پیچھے کارفرما محرکات کا جائزہ لے لیں تو یہ مسائل کافی حد تک حل ہو سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس موضوع پر ہونے والی اب تک کی تحقیق سے بچوں کے نافرمان ہونے کی درج ذیل سات وجوہات سامنے آئی ہیں۔


 (1والدین کے اخلاقی مسائل
اخلاقی مسائل سے مراد ہم جو بات کرتے ہیں اس پر پورا نہیں اترتے۔ہم اکثر غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ہمارے قول اور فعل میں تضاد ہوتا ہے۔جب والدین خود جھوٹ بولیں گے تو وہ اپنے بچوں کو سچ کی تعلیم کیسے دے سکتے ہیں۔بچے کبھی بھی ایسے شخص کی بات نہیں مانتے جس کی ایمانداری ،دیانتداری اور وعدے کی پاسداری مشکوک ہو۔

(2والدین کے نفسیاتی مسائل
ایک دفعہ کسی ٹرینر نے بچوں سے سوال کیا کہ آپ نے اپنی امی کو کب مسکراتے ہوئے دیکھا ہے تو اکثر بچوں نے یہ جواب دیا کہ ہم نے اپنی امی کو صرف اس وقت مسکراتے ہوئے دیکھا ہے جب وہ کسی اور سے بات کر رہی ہوں۔جب وہ ہم سے بات کرتی ہیں تو ہمیشہ غصے سے بات کرتی ہیں۔اسی طرح بہت سے بچوں نے اپنے والد کو ہر وقت غصے کی حالت میں دیکھا ہے ۔

مزاج میں چڑچڑا پن،بے رخی اورغیر معقول سختی انسان کی بات میں تاثیر ختم کر دیتی ہے۔اور بچے بھی ایسے والدین کی بات سننا پسند نہیں کرتے۔ہر وقت شکوے کرنے والے ،ناراض رہنے والے اور ناشکری کرنے والے والدین کے بچے بھی ان کی بات نہیں مانتے۔
(3والدین کی کمزور لسانی قابلیت
لسانی قابلیت کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ آپ کو بہت سے زبانیں بولنی آتی ہیں۔

بلکہ ان پڑھ والدین کے بچے بھی بہت فرمانبردار ہو سکتے ہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا بات سمجھانے کا انداز دلکش ہوتا ہے۔بچوں کے لیے اس شخص کی بات ماننا دشوار ہو جاتا ہے جس کی بات ان کو سمجھ ہی نہیں آتی۔اگر آپ بات کچھ اور کرنا چاہتے ہیں اور آپ کے الفاظ کچھ اور بول رہے ہیں تو بچہ آپ کی بات نہیں مانے گا۔
(4والدین کی علمی استعداد کا مسئلہ
جب بچہ چھوٹا ہوتا ہے تو اس کے لئے دنیا کا سب سے بہترین اور عقل مند شخص اس کا باپ یا ماں ہوتی ہے۔

جب وہ بڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے والدین کی علمی سطح کوجانچنا شروع کر دیتا ہے۔علمی سطح کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کے پاس کتنی ڈگریاں ہیں ۔علمی استعداد سے مراد سوچنے سمجھنے،فیصلہ کرنے اورغور و فکر کرنے کی صلاحیت ہے۔جب بچے تھوڑ ابڑے ہو جاتے ہیں تو وہ آپ کی بات اس وقت سنتے ہیں جب آپ کے پاس علم ہوتا ہے ،دانائی ہوتی ہے،فہم اور تدبر ہوتا ہے۔اس لیے والدین کو اپنے شعور اور علم کو بہتر بنانا چاہئے۔

(5بچے کی لسانی استعداد کا مسئلہ
وہ بچہ جس کی سننے اور بات کو سمجھنے کی صلاحیت کم ہو وہ بھی آپ کی بات نہیں سمجھے گا۔بات کو سننے ،سمجھنے ،پرکھنے ،غور و فکر کرنے اور شعور کو بہتر کرنے میں بچے کی پہلی زبان کا بہت اہم کردار ہوتا ہے ۔اس لئے یہ ضروری ہے کہ بچے کی جو بھی پہلی زبان ہو اس پر اس کی گرفت مظبوط ہو، تاکہ وہ آپ کی بات سمجھ سکے۔

ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے بچوں کی کوئی بھی زبان اچھی نہیں ہے۔اب تو اپنی زبان کو لکھنا بھی بھول گئے ہیں۔
(6بچے کا ذہنی الجھاؤ
اگر کوئی بچہ ذہنی طور پر الجھا ہو ا ،کھویا ہوا اور پریشان ہے تو والدین کی بات ماننا اس کے لئے بھی مشکل ہو جاتا ہے۔اس لئے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کی نفسیات کو سمجھیں ۔

پہلے اس کی بات سنیں پھراپنی بات سنائیں۔اس کے مسائل کو سمجھیں اور ان کو حل کرنے کی پوری کاشش کریں وہ خود بخود فرمانبردار بن جائے گا۔ 
(7والدین اور بچے کا کمزور تعلق
آج حالت یہ ہے کہ اگر دو لوگ کسی سڑک پر اکٹھے چل رہے ہوں اور ان کے درمیان کوئی بات نہ ہو رہی ہو تو سمجھیں کہ وہ باپ اور بیٹا ہیں ۔یعنی والدین اور بچوں کاتعلق بہت کمزور ہوتاجا رہا ہے۔

کوئی بھی بچہ اپنے والدین کے ساتھ بیٹھنا اور ان سے با تیں کرنا چاہتا ہی نہیں ہے۔یہ صورت حال تب پیدا ہوتی ہے جب وہ تھوڑا بڑا ہو جاتا ہے ۔کیونکہ کم عمری میں آپ نے اپنے بچوں کے ساتھ مضبوط تعلق قائم نہیں کیا ہوتا اور جونہی وہ بلوغت کی عمر میں پہنچتا ہے تو وہ آپ سے باغی ہو جاتا ہے۔
یہ سات وجوہات ہیں جن کے باعث بچے اپنے والدین کی بات سننا اور ماننا پسند نہیں کرتے اگر والدین ان مسائل کو حل کر نے میں کامیاب ہو جائیں تو بچے ان کی بات سنیں گے بھی اور خوشی سے مانیں گے بھی۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

nafarman bachay, aakhir kyon ? is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 April 2020 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.